سورة غافر - آیت 41

وَيَا قَوْمِ مَا لِي أَدْعُوكُمْ إِلَى النَّجَاةِ وَتَدْعُونَنِي إِلَى النَّارِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے میری قوم! یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلا رہا ہوں (١) اور تم مجھے دوزخ کی طرف بلا رہے ہو۔ (٢)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مرد مومن کی بقیہ تقریر ف 2: اس مرد مومن نے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے کہا ۔ کہ میں تو تمہیں نجات اور مخلصی کی دعوت دیتا ہوں ۔ اور تم مجھے جہنم کی طرف بلاتے ہو ۔ تم یہ چاہتے ہو کہ میں اللہ کا انکار کردوں اور اس کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہراؤ ں ۔ جن کے متعلق میں نہیں جانتا کہ وہ کیونکر خدا ہوسکتی ہیں ۔ میں تمہیں ایسے رب عزت اور خطا بخش خدا کی جانب بلاتا ہوں ۔ جو ساری دنیا کا مالک ہے اور تم جن معبودان باطل کے لئے میری عقیدت مندی کو حاصل کرنا چاہتے ہو ۔ وہ دنیا میں کام آسکتے ہیں ۔ نہ آخرت میں ۔ یاد رکھو ہم سب کو بالآخر اسی خدا کے جانب لوٹ کر جانا ہے ۔ اور وہاں وہ لوگ جو حد عبودیت سے تجاوز کررہے ہیں دوزخ میں جائیں گے ۔ تم لوگوں کو عنقریب معلوم ہوگا کہ میں جو کچھ کہتا ہوں ۔ وہ حق وصداقت ہے ۔ اور میں اپنے معاملہ کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔ کیونکہ میرا ایمان یہ ہے کہ خدا اپنے بندوں کا ہمیشہ خیال رکھتا ہے ۔ اس مخلصانہ وعظ کا اثر الٹا ہوا ۔ قوم مخالفت پر آمادہ ہوگئی ۔ اور یہ سوچنے لگی ۔ کہ کیونکر حضرت موسیٰ کے تبلیغی اثرات لوح قلب سے مٹایا جاسکتا ہے ۔ تشدد کی تیاریاں ہونے لگیں اور سزا کی دھمکیاں دی جانے لگیں ۔ کہ اتنے میں حضرت موسیٰ کو حکم ہوا کہ آپ ارض مصر کو چھوڑ دیں ۔ اور بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے جائیں ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ نے اس پر عمل کیا اور راتوں رات سرزمین مصر کو خالی کردیا ۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے تعاقب کیا اور دریا میں ڈوبا دیئے گئے *۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے اپنے بندوں کی حمایت کی ۔ اور حیرت انگیز طریق سے اتنے بڑے بادشاہ کے چنگل سے ان لوگوں کورہائی بخشی ۔ اور عملاً یہ بتادیا ۔ کہ اللہ کی ضمانتیں بجائے خودایک طاقت اور قوت ہیں اور جس کے ساتھ اللہ کی نصرت اور اعانت ہو ۔ وہ کبھی اپنے مقاصد میں ناکام نہیں رہتا ۔ اور نیز اس چیز کا اظہار فرمایا ہے ۔ کہ غررور مادی کے لئے ہمیشہ شکست اور عزیمت ہے اور یہ مقدرات سے ہے کہ روحانیت کی فتح ہو اور باطل دب جائے *۔ حل لغات :۔ لاجرم ۔ تاکید کے لئے ہے *۔