وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِن قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِّمَّا جَاءَكُم بِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَن يَبْعَثَ اللَّهُ مِن بَعْدِهِ رَسُولًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابٌ
اور اس سے پہلے تمہارے پاس (حضرت) یوسف دلیلیں لے کر آئے، (١) پھر بھی تم ان کی لائی ہوئی (دلیل) میں شک و شبہ ہی کرتے رہے (٢) یہاں تک کہ جب ان کی وفات ہوگئی (٣) تو کہنے لگے ان کے بعد تو اللہ کسی رسول کو بھیجے گا ہی نہیں (٤)، اسی طرح اللہ گمراہ کرتا ہے ہر اس شخص کو جو حد سے بڑھ جانے والا شک شبہ کرنے والا ہو (٥)
حل لغات: لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ۔یہ ملحوظ رہے کہ یہ قبطیوں کا عقیدہ نہیں تھا کیونکہ وہ تو حضرت یوسف کو پیغمبر ہی نہیں مانتے تھے بلکہ یہ اظہار مسرت کا ایک انداز تھا ۔ غرض یہ تھی کہ اچھا ہوا اس مصیبت سے پیچھا چھوٹا یعنی یہ ان کی خواہش تھی کہ اب کوئی دوسرا پیغمبر تشریف نہ لائ اور ہم کو نصیحت نہ فرمائے پیشگوئی نہ تھی ۔ جیسا کہ علامہ رازی نے تصریح فرمائی ہے کہ یہ انہوں نے علی سبیل التشھی کہا تھا ۔