سورة غافر - آیت 31

مِثْلَ دَأْبِ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ۚ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِّلْعِبَادِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جیسے امت نوح اور عاد و ثمود اور ان کے بعد والوں کا (حال ہوا) (١) اللہ اپنے بندوں پر کسی طرح کا ظلم کرنا نہیں چاہتا۔ (٢)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف 1) تم بھی کہیں قوم نوح الور ثمودکی طرح کے عذاب کا شکار نہ بن جاؤ اے قوم مجھے اندیشہ ہے ۔ کہ قیامت کے دن جب تم موقف حساب سے پشت پھیر کر دوزخ کی طرف لوٹو گے ۔ تو تمہیں کوئی قوت نہ بچا سکے گی ۔ اس وقت یہ حکومت واقتدار اور بادشاہت اور اختیارات تمہارے کام نہ آسکیں گے ۔ تم کو معلوم ہے کہ جب حضرت یوسف تم میں پہلے پہل تشریف لائے تھے ۔ اور انہوں نے دلائل وشواہد سے اپنی نبوت کا اعلان کیا تھا ۔ تو تم اس وقت بھی شک وشبہ میں مبتلا رہے ۔ اور پھر جب ان کا انتقال ہوگیا ۔ تو تم نے ازراہ محرومی وبدبختی کہا ۔ کہ اچھا ہوا ۔ اب ان کے بعد تو کوئی شخص نہ آئے گا ۔ اور ہم کو عیس وعشرت کی زندگی سے نہ منع کریں گا اس وقت بھی تم نے خباثت نفس کا ثبوت دیا ۔ اور اسی وقت بھی تم توفیق ہدایت سے محروم ہورہے ہو ۔ یقینا ایسے فساق کو جو طبیعت کے شکی ہوں ۔ کبھی معاوت سے بہرہ مندی حاصل نہیں ہوتی ۔ معلوم ہوتا ہے ۔ یہ مرد مومن قوموں اور ملتوں پر جو عذاب آتا ہے اس کی حکمت کو خوب سمجھتا ہے ۔ ایسی لئے جہاں اپنی قوم کو تباہی اور ہلاکت سے متنبہ کرتا ہے ۔ وہاں کہتا ہے ۔ وما اللہ یرید ظلما للعباد یعنی یہ عذاب جو آتا ہے تو اس لئے نہیں ۔ کہ خدا کا جذبہ انتقام بھڑک اٹھتا ہے اور محض مظاہرہ جلال وجبروت میں اور انسان کے ایک طبقہ کو فنا کے گھاٹ اتاردیتا ہے ۔ بلکہ یہ مصلحت پر مبنی ہوتا ہے ۔ قوموں کو اس وقت ہلاک کیا جاتا ہے ۔ جب ان کے اعمال کی سمیت سارے جسم انسانی میں سرایت کرجائے ۔ اور خطرہ ہو کہ اس کا بقا آئندہ نسلوں کے لئے تباہ کن ہوگا ۔ اس وقت ان کو سزا دی جاتی ہے ۔ اور جسم انسانی سے ان کے تعلق حیات کو منطق کردیا جاتا ہے ۔ تاکہ جسم کا دوسرا حصہ آفت دنیا سے بچ جائے ۔ جس طرح زندگی قائم رکھنے کے لئے انسان کے بعض اعضاء کو کاٹ دیا جاتا ہے ۔ اور یہ عمل اس کے ساتھ مہربانی اور کرم گستری کا سمجھا جاتا ہے ۔ اسی طرح ان قوموں کو تباہ کردینا ۔ جن کے گناہوں سے ساری کائنات انسانی کے لئے خطرہ ہو نفس انسانیت کے ساتھ بہترین سلوک روا رکھنا اور زندگی کو بچا لینا ہے ۔ حل لغات :۔ التناد ۔ پکار ۔ دعوت * ان یبعت اللہ یہ ملحوظ رہے کہ یہ قبطیوں کا عقیدہ نہیں تھا ۔ کیونکہ وہ تو حضرت یوسف کو پیغمبر ہی نہیں مانتے تھے ۔ بلکہ یہ اظہار مسرت کا ایک انداز تھا ۔ غرض یہ تھی کہ اچھا ہوا اس مصیبت سے پیچھا چھوٹا ۔ یعنی یہ ان کی خواہش تھی کہ اب کوئی دوسرا پیغمبر تشریف نہ لائے ۔ اور ہم کو نصیحت نہ فرمائے ۔ پیشگوئی نہ تھی ۔ جیسا کہ علامہ رازی نے تصریح فرمائی ہے ۔ کہ یہ انہوں نے علی سبیل التشھی کہا تھا *۔