وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ ۖ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ
اور ایک مومن شخص نے، جو فرعون کے خاندان میں سے تھا اور اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، کہا کہ تم ایک شخص کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے (١) اگر وہ جھوٹا ہو تو اس کا جھوٹ اسی پر ہے اور اگر وہ سچا ہو، تو جس (عذاب) کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے اس میں کچھ نہ کچھ تو تم پر آپڑے گا، (٢) اللہ تعالیٰ اس کی رہبری نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے اور جھوٹے ہوں۔ (٣)
فرعون کے استبداد کا جواب ف 1: حضرت یوسف (علیہ السلام) کے عہد بابرکت میں بنی اسرائیل مصر میں آئے ۔ اور پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے ۔ تقریباً چار صدیاں انہوں نے یہاں امن وسکون کے ساتھ گزاریں اس کے بعد جب قبطیوں نے دیکھا ۔ کہ یہ لوگ اپنی ذہنی اور جسمانی لحاظ سے ہم سے کہیں بڑھ کر ہیں ۔ تو ان کو خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں یہ قوت واقتدار کے تمام شعبوں پر نہ چھا جائیں ۔ اور ہمیں جو کہ مصر کے اصل باشندے ہیں ۔ نکال باہر نہ کریں ۔ اس لئے مخالفت اور عناد کے جذبات ان کے سینوں میں پیدا ہوئے ۔ اور آہستہ آہستہ بڑھنے لگے ۔ قراعنہ مصر نے قبیلوں کے ساتھ دیا اور بنی اسرائیل کی تذلیل وتحقیر ٹھان لی ۔ تقریباً نصف صدی کے معانداز طرز عمل نے تمام اختیارات کو قبطیوں کی طرف منتقل کردیا ۔ اور بنی اسرائیل نہایت ہی بری طرح غلامی کی زندگی بسر کرنے لگے اور پھر بھی ان کا جذبہ انتقام فرونہ ہوا ۔ یہ لوگ چاہتے تھے کہ ان سے ہر طرح کا انتقام لیں اور مصر میں اس طرح ان کو بےپست وپا کردیں کہ یہ کبھی بھی ہمارا مقابلہ نہ کریں اور ہمیشہ ہمارے محتاج رہیں اس وقت اللہ تعالیٰ نے فطرت موسیٰ کو بھیجا ۔ تاکہ وہ اس کے ظلم واستبداد کا مقابلہ کریں ۔ اور فرعون اور اس کے اعوان وانصار کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں ۔ فرعون کو جب حضرت موسیٰ کے ان عزائم کا پتہ چلا تو اس کے قتل کے درپے ہوا کہنے لگا کہ مجھے اجازت دو کہ میں اس کو مارڈالوں اور یہ جو ایک خدائے واحد کی طرف بلاتا ہے ۔ میں اس کی قوت بھی آزمادیکھوں مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ تمہارے اندر الحاد نہ پھیلا دے اور تمہارے دین کو بدل نہ ڈالے اور یا ملک میں ابتری اور خرابی نہ پھیلادے ۔ قرآن حکیم نے درمیان کے تمام واقعات کو یہاں احذف کردیا ہے ۔ کہ حضرت موسیٰ فرعون کے ارادوں کے خلاف کس طرح بچ نکلے اور اس کے قصر میں تربیت حاصل کی ۔ اور پھر اس کو تبلیغ کے لئے منتخب کیا ۔ معجزات سکھائے ۔ مقابلہ ہوا اور ان کی فتح ہوئی ۔ یہاں صرف اس قدر بتانا مقصود ہے ۔ کہ ہر سرکشی اور بغاوت کے لئے اللہ کے پاس ایک نوع کی ہدایت اور قوت ہے جس سے وہ کام لیتا ہے ۔ اور معاندین کو یا تو حلقہ بگوش اطاعت بنالیتا ہے یاکچل دیتا ہے ۔ اس لئے مکہ والے اپنے جہل اور تعصب میں اس درجہ مفرور نہ ہوجائیں ۔ کہ خدا کی گرفت سے اپنے کو آزاد سمجھیں ۔ حضرت موسیٰ نے جب فرعون کے اس ارادہ کے متعلق سنا ۔ تو کہنے لگے میں اس پروردگار کی پناہ میں ہوں جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے ۔ اس لئے ہر بےدین کے کبرونخوت سے محفوظ ہوں ایمان میں یہ عجیب قوت ہے کہ یہ خود اروں کو قبول اور پذیرائی کے لئے منتخب کرلیتا ہے اور اس کا انتخاب بھی اس نوع کا ہوتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے یا تو یہ کیفیت ہے کہ فرعون اور اس کی قوم موسیٰ کی دعوت آزادی کی وجہ سے انگاروں پر لوٹ رہے ہیں ۔ یا فتوحات ایمانی کا یہ عالم ہے کہ فرعون ہی کے کنبہ والوں میں سے ایک شخص حضرت موسیٰ کی دعوت کو قبول کرلیتا ہے ۔ اور صاف طور پر اپنی قوم سے کہتا ہے کہ کیا تم ایک شخص کو محض اس لئے جان سے ماررہے ہو ۔ کہ وہ اللہ کی ربوبیت کا قائل ہے ۔ حل لغات :۔ کید ۔ تدبیر * الفساد ۔ تباہی ۔ ضداصلاح ۔