سورة الزمر - آیت 71

وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

کافروں کے غول کے غول جہنم کی طرف ہنکائے جائیں گے (١) جب وہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اس کے دروازے ان کے لئے کھول دیئے جائیں گے (٢) اور وہاں کے نگہبان ان سے سوال کریں گے کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے؟ جو تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے تھے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے رہتے؟ (٣) یہ جواب دیں گے ہاں درست ہے لیکن عذاب کا حکم کافروں پر ثابت ہوگیا۔ (٤)

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

علم الٰہی کی اکملیت (ف 2) منکرین حق وصداقت کو گروہ در گروہ جہنم کی طرف کشاں کشاں لیجایا جائے گا ۔ اور جب وہ جہنم کے قریب پہنچ جائیں گے ۔ تو اس کے دروازے ان کے لئے کھل جائیں گے ۔ محافظ پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس اللہ کے رسول نہیں آئے تھے ۔ جو تمہیں اللہ کے احکام سناتے اور آج کے دن کی اہمیت سے آگاہ کرتے ۔ وہ کہیں گے کہ ہاں پیغمبر تو تشریف لائے تھے مگر ہم نے محرومی وشقاوت کی وجہ سے ان کو تسلیم نہ کیا ۔ اور کبر و غرور میں مبتلا ہوکر ان کے پیغام کو ٹھکرایا ۔ جہنم کے محافظ فرشتے یہ سارا مکالمہ زجر وتوبیخ کے انداز میں کرینگے کہ ان لوگوں کو معلوم ہو کہ اللہ کے مرسلوں کی تکذیب کا انجام کتنا خوفناک ہوسکتا ہے ۔ اور ان کو محسوس ہو کہ اللہ کے ہاں ہمارے مال ودولت کی قدروقیمت نہیں ہے وہاں ہمارے جاہ ومنصب کی کوئی رعایت نہیں کی جاتی ۔ بلکہ اس دربار عزت وجلال میں ان لوگوں کی بات سنی جاتی ہے ۔ جن کو ہم دنیا میں ہدف استہزا بناتے تھے ۔ اس حریم قدس وعظمت میں ان کی بازیابی ہے جو دنیا میں ایمان وعمل کے زیور سے آراستہ تھے اور اس ایوان حشمت وشکوہ میں صرف وہ لوگ جگہ پاسکتے ہیں جن کو یہ فخر حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے انبیاء سے اظہار عقیدت کیا ہے اور ان کی پیروی اور اطاعت کو باعث نجات سمجھا ہے ۔ (ف 3) ﴿حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ﴾ سے مراد یہ ہے کہ ان لوگوں کے متعلق ازلی فیصلہ یہ تھا کہ یہ لوگ اپنے اختیار سے خواہشات نفس کو ترجیح دیں گے اور عقبیٰ کا خیال نہیں رکھیں گے ۔ یہ گمراہ ہوں گے اور اپنے لئے عذاب کو پسند کریں گے ۔ اس لئے لازمی اور حتمی تھا کہ یہ اپنے اعمال سے اللہ کے اس اٹل علم کی تصدیق کریں ۔ اور واقعہ میں ثابت کردیں کہ حکمت ازلیہ میں جو کچھ لکھا جاچکا تھا ۔ وہ حرف بہ حرف صحیح ہے ۔ اس انداز بیان سے غلط فہمی نہ ہو کہ اللہ کا فیصلہ ہمارے اعمال پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ اور وہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم عملاً اس کی تصدیق کریں ۔ بلکہ ہوتا یہ ہے کہ جو کچھ ہمیں اپنے اختیارات سے کرنا ہے ۔ بلا کسی قوت آسمانی کے تعرض کے وہ اللہ پہلے سے جانتا ہے اور اس طرح جانتا ہے کہ اس میں تخمین کی غلطی نہیں ہوسکتی ۔ یہ علم بجائے خود ضرور کامل ہوتا ہے مگر یہ ہمیں مجبور نہیں کرتا کہ ہم اس کی تصدیق کے لیے کوشش کریں ۔ بلکہ یہ ایک علم کی اکملیت کا تقاضا ہے کہ ہم بالکل اسی طرح کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ جس طرح کہ لوح محفوظ میں ہمارے لئے مقدر ومرتسم ہے ۔ یہ ایک باریک فرق ہے ۔ جس کو نظر انداز کردینے سے اکثر غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور سمجھا جاتا ہے کہ شاید علم الٰہی ہمارے اعمال کا خودذمہ دار ہے ۔ حالانکہ ایسا نہیں ۔ ہم اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ہیں ۔ البتہ علم الٰہی میں ہمارے اعمال کی تمام تفصیلات پہلے سے موجود ہے ۔