سورة آل عمران - آیت 114

يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَأُولَٰئِكَ مِنَ الصَّالِحِينَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

یہ اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان بھی رکھتے ہیں بھلائیوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں یہ نیک بخت لوگوں میں سے ہیں۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

ایمان باللہ کے معنی : (ف2) ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ جہاں ایک کتاب میں یہودی ذلت ومسکنت کے عذاب الیم میں گرفتار ہیں ‘ وہاں چند سعید روحیں بھی ہیں جو بدرجہ غایت خدا پرست ہیں ، ان کے دلوں میں ایمان واتقاء کی قندیل روشن ہے ، وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور اعلان حق میں ہر آن کوشاں رہتے ہیں ، یہ صالح اور نیک لوگوں کی جماعت ہے ، ان کی نیکیاں محض اس لئے ضائع نہیں ہونگی کہ وہ پہلے یہودی تھے ، خدا علیم بذات الصدور ہے ، وہ خوب جانتا ہے کہ یہ خدا پرست اور متقی ہیں ‘ اس لئے انکی ہر سعی مقبول وماجور ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں تعصب وانتقام کو کوئی دخل نہیں ، کوئی انسان کسی وقت بھی حق کو قبول کرلے ، اللہ کا مقبول بندہ بن جاتا ہے ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اپنی کمزوریوں کا احساس ہو اور بس توبہ وانابت کے بعد اس کے دامن میں پناہ لینے کا سب کو استحقاق ہے ۔ یہی مفہوم ہے جس کو آیات میں واضح کیا گیا ہے ، بعض لوگوں کو اس قبیل کی آیات سے دھوکا ہوا ہے اور انہوں نے سمجھا ہے کہ شاید ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے بعد ایمان بالرسول (ﷺ) ضروری نہیں اور بغیر مسلمان ہونے کے ہر شخص نجات حاصل کرسکتا ہے ، مگر یہ صحیح نہیں ، قرآن حکیم ایک مستقل پیام نجات ہے ، وہ لوگ جو اسے نہیں مانتے ، وہ کسی طرح بھی حق پرست نہیں ہیں ، قرآن حکیم اخلاق ومعاشرت کا ایک معین پروگرام ہے ‘ اس لئے اس سے قطع نظر عنوان بھی درست نہیں ، یہی مقصد ہے اس آیت کا ﴿وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ﴾اسلام کے سوا کوئی راہ نجات نہیں ، صرف ایمان باللہ جو کوئی شخص پیام نہ رکھتا ہو ، یہ ناکافی ہے ۔ بات یہ ہے کہ دھوکا ‘ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے الفاظ سے ہوتا ہے ۔ ان کا عموم ان کے لئے وجہ لغزش بن جاتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک اصطلاح ہے ، قرآن حکیم میں متقی و مومن کا اطلاق اسی شخص پر ہوتا ہے جو کاملا اسلام کو مان لیتا ہے ، علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس نکتہ کو کس طرح بھانپ لیا ہے ، وہ لکھتے ہیں : ” وَقَدْ بَیَّنَا اَنَّ اْلاِیْمَانَ بِاللّٰہِ یَسْتَلْزِمُ اْلاِیْمَانَ بِجَمِیْعِ اَنْبِیَائِہٖ وَرُسُلِہٖ وَاْلِایْمَانَ بِالْیَوْمِ اْلاٰخِرِ یَسْتَلْزِمُ الْحَذَرَ مِنَ الْمَعَاصِیْ “۔ یعنی ایمان باللہ مستلزم ہے تمام انبیاء ورسل پر ایمان لانے کو اور ایمان بالآخرت کے معنی ہیں تمام برائیوں سے بچنا ۔ اور یہ کوئی تک نہیں قرآن حکیم کے عمیق مطالعہ سے یہی معلوم ہوتا ہے جسے فاضل رازی رحمۃ اللہ علیہ کی دقیقہ رس نگاہوں نے سرسری طور پر معلوم کرلیا ہے ۔