وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ
اور ہمارے بندے ایوب (علیہ السلام) کا (بھی) ذکر کر، جبکہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے رنج اور دکھ پہنچایا ہے (١)
ف 1: ان تمام قصوں سے مقصد یہ ہے ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسکین خاطر کا سامان مہیا کیا جائے ۔ آپ کو بتایا جائے ۔ کہ نبوت کے لئے فقرواخلاص ضروری نہیں ہے ۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کو دیکھئے ۔ کہ کیونکر اللہ تعالیٰ نے ان کو مال ودولت اور جاہ وحشمت سے نواز رکھا تھا ۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں ۔ کہ انبیاء آسودگی اور تنعم کی زندگی ہی بسر کریں ۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو دیکھئے کہ وہ کس قدر تکلیف میں مبتلا ہوئے ۔ مگر پھر بھی دامن صبروشکر کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا *۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) قصہ یہ تھا کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) بیمار ہوگئے ۔ اور بیماری نے یہاں تک طول کھینچا کہ اہل وعیال بھی گھبراگئے ۔ اور بالآخر ان کو چھوڑ کر چل دیئے ۔ اس حالت میں بھی ایوب دعا وشکر اور کار وستائش میں مصروف رہے اللہ تعالیٰ نے اپنے صابر بندے کی دعا کو سن لیا ۔ اور بیماری کو صحت وتوانائی سے بدل دیا ۔ ایک چشمہ بخشا پاؤں کی ٹھوکر سے ابلا ۔ اور حضرت ایوب اس میں نہا کر بالکل تندرست ہوگئے پھر اہل وعیال کے لوگ بھی حسب دستور واپس آگئے ۔ اور حضرت ایوب امن وسعادت کی زندگی بسر کرنے لگے ۔ ایک خلش دل میں باقی تھی اور وہ یہ تھی کہ بیماری کی حالت میں اپنی بیوی کے متعلق قسم کھاچکے تھے کہ اس کو اس کی ناشکری اور خدمت گزاری کی سزا دینگے اور ماریں گے ۔ مگر اب دل نہ چاہتا تھا ۔ کہ قسم کو پورا کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سینکریں کا ایک مٹھا لو اور اس سے مار کر قسم کو پورا کرلو ۔ اس سے تم اپنی قسم کو بھی پورا کرسکوگے ۔ اور تمہاری بیوی کو دکھ بھی نہیں پہنچے گا ۔ چنانچہ حضرت ایوب نے اس تدبیر پر عمل کیا اور سوگند شکنی کے ارتکاب سے بچ گئے ۔ اس واقعہ سے فقہائے متاخرین نے ایسے علامات پیدا کئے ہیں کہ العیاذ باللہ پورا نظام شرعی ہی تباہ ہوجاتا ہے ۔ اور ہر حکم میں اس طرح کی لچک پیدا ہوجاتی ہے ۔ کہ اس کو اپنی خواہشات کے مطابق بنا سکیں ۔ اصل میں اس باب میں ایک اصولی چیز کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ شریعت اسلامی میں سہولت وآسانی مقدر ہے اگر الفاظ میں اس طرح کی گنجائش ہو ۔ کہ کوئی شخص مشکلات سے بچ سکے ۔ تو اسلام اس مدد کرتا ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ شریعت اسلامی کے احکام کو ایک قسم کا بار سمجھ لیا جائے ۔ اور اس سے گردن چھڑانے کے لئے حیلے تراشے جائیں ۔ حضرت ایوب کے قصہ میں کسی حکم شرعی کے ازار کے لئے کوئی تدبیر نہیں سوچی گئی ہے ۔ بلکہ اسی بات پر غور کیا گیا ہے کہ کیونکر حضرت ایوب کے الفاظ کو بہترین اور مفید شکل میں استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ دونوں زاویہ نگاہ کا بہت بڑا فرق ہے *۔ حل لغات : مقربین ۔ بندھے ہوئے * مسنی الشیطن ۔ یعنی میں بیمار ہوگیا ہوں ۔ مگر جب بیماری کو شیطان کی طرف منصوب کرتے ہیں یختل نہانے کی جگہ صغنا ۔ سینکوں کا مٹھا *۔