سورة ص - آیت 27

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ۚ ذَٰلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ناحق پیدا نہیں کیا (١) یہ گمان تو کافروں کا ہے سو کافروں کے لئے خرابی ہے آگ کی۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

دنیا کی تخلیق کا ایک مقصد ہے ف 1: قرآن حکیم پہلی کتاب ہے جو دنیا کے لئے غرض اور مقصد کا تعین کرتی ہے اور کہتی ہے کہ عالم کون ومکان یہ تزئین وآرائش ، یہ قبہ نیلگوں ، ستارے ، یہ چان اور آفتاب جہاں تاب یونہی نہیں پیدا کئے گئے ہیں ۔ بلکہ ان کی تخلیق کا ایک متعین مقصد ہے ۔ انسان کو جو اس دنیا میں خلعت وجود دے کر بھیجا گیا ہے ۔ تو صرف اس لئے نہیں کہ وہ چند مادی لذتوں سے بہرہ مند ہوا اور پھر پیمانہ عمر لبریز ہونے پر دنیا چھوڑ دے ۔ بلکہ اس لئے کہ اس کے پیدا کرنے میں ایک حکمت ہے ۔ قرآن کہتا ہے اس بساط حیات کو لعو ولعب کے لئے نہیں بچھایا گیا ہے ۔ اور یہ کائنات محض اتفاق وقت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کو عظیم وعلیم خدا نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے ۔ اس آیت میں مادیت کے اس نظریہ کی تردید ہے ۔ جو دنیا کو محض مادہ کے غیر شعوری تصرفات کا نتیجہ سمجھتے ہیں ۔ اور جن کی رائے ہے کہ اس کارگاہ حیات کے پس پردہ کوئی شعور وادراک کار فرما نہیں ہے ۔ جو کچھ ہے ۔ وہ صرف مادہ ہے ۔ آگے مادہ ہے ۔ پیچھے مادہ ہے ۔ اور ہر جہار طرف مادہ ہی کو حکومت اور اس کا تسلط ہے ۔ اب یہ عقیدہ تقریباً باطل ہوگیا ہے ۔ اور خود مادئیں اب یہ کہنے لگے ہیں ۔ کہ صرف مادہ اس درجہ اہمیت نہیں رکھتا ۔ کہ اسے طبعی طور پر ہر چیز کا منبع سمجھ لیا جائے ۔ بلکہ مادہ پر قوت حیات حکمران ہے ۔ گو وہ خدا کو ابھی اس شکل میں نہیں مانتے ۔ جس میں کہ مذہب اس کو پیش کرنا چاہتا ہے ۔ مگر اب یہ لوگ قریباً ایک ذی شعور ہستی کو ماننے لگے ہیں ۔ جو حیات اور زندگی کا مخرج ہے *۔