وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ۚ ذَٰلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ
اور ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ناحق پیدا نہیں کیا (١) یہ گمان تو کافروں کا ہے سو کافروں کے لئے خرابی ہے آگ کی۔
دنیا کی تخلیق کا ایک مقصد ہے ف 1: قرآن حکیم پہلی کتاب ہے جو دنیا کے لئے غرض اور مقصد کا تعین کرتی ہے اور کہتی ہے کہ عالم کون ومکان یہ تزئین وآرائش ، یہ قبہ نیلگوں ، ستارے ، یہ چان اور آفتاب جہاں تاب یونہی نہیں پیدا کئے گئے ہیں ۔ بلکہ ان کی تخلیق کا ایک متعین مقصد ہے ۔ انسان کو جو اس دنیا میں خلعت وجود دے کر بھیجا گیا ہے ۔ تو صرف اس لئے نہیں کہ وہ چند مادی لذتوں سے بہرہ مند ہوا اور پھر پیمانہ عمر لبریز ہونے پر دنیا چھوڑ دے ۔ بلکہ اس لئے کہ اس کے پیدا کرنے میں ایک حکمت ہے ۔ قرآن کہتا ہے اس بساط حیات کو لعو ولعب کے لئے نہیں بچھایا گیا ہے ۔ اور یہ کائنات محض اتفاق وقت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کو عظیم وعلیم خدا نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے ۔ اس آیت میں مادیت کے اس نظریہ کی تردید ہے ۔ جو دنیا کو محض مادہ کے غیر شعوری تصرفات کا نتیجہ سمجھتے ہیں ۔ اور جن کی رائے ہے کہ اس کارگاہ حیات کے پس پردہ کوئی شعور وادراک کار فرما نہیں ہے ۔ جو کچھ ہے ۔ وہ صرف مادہ ہے ۔ آگے مادہ ہے ۔ پیچھے مادہ ہے ۔ اور ہر جہار طرف مادہ ہی کو حکومت اور اس کا تسلط ہے ۔ اب یہ عقیدہ تقریباً باطل ہوگیا ہے ۔ اور خود مادئیں اب یہ کہنے لگے ہیں ۔ کہ صرف مادہ اس درجہ اہمیت نہیں رکھتا ۔ کہ اسے طبعی طور پر ہر چیز کا منبع سمجھ لیا جائے ۔ بلکہ مادہ پر قوت حیات حکمران ہے ۔ گو وہ خدا کو ابھی اس شکل میں نہیں مانتے ۔ جس میں کہ مذہب اس کو پیش کرنا چاہتا ہے ۔ مگر اب یہ لوگ قریباً ایک ذی شعور ہستی کو ماننے لگے ہیں ۔ جو حیات اور زندگی کا مخرج ہے *۔