سَلَامٌ عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ
کہ موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) پر سلام ہو۔
قرآن کا نظریہ فضیلت (ف 1) غرض یہ ہے کہ جب کوئی اللہ کا بندہ مخلوقات کی مخالفت کی پرواہ نہ کرکے حقانیت کو قبول کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے برکات کے دروازے کھول دیتے ہیں ۔ اسے دنیا اور دین کی ہر نعمت سے بہرہ مندی کا موقع دیتے ہیں ۔ دیکھئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب توحید کی آواز کو بلند کیا تو اس وقت وہ یکہ وتنہا تھے ۔ ساری قوم میں ہمنوانہ تھا اور ایسا بھی نہ تھا جو سنجیدگی کے ساتھ دعوت ابراہیمی کے متعلق سوچتا اور غوروفکر سے کام لیتا ۔ پھر ایک وقت آیا کہ اس دعوت کا احیاء ہوا ۔ مکہ کی وادیاں توحید کے زمزموں سے گونج اٹھیں ۔ اور حضرت ابراہیم کا دیرینہ خواب پورا ہوا ۔ حضرت اسحاق نے اور حضرت اسمعٰیل نے آپ کے منصب امامت کو سنبھالا ۔ اور چارہ انگ حجازوشام میں توحید کے پیغام کو پھیلایا ۔ اس طرح یکہ وتنہا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) امتوں اور گروہوں کے مورث ہوئے ۔ اور ضروری قرار دیا گیا کہ اسلامی دنیا ان کے لئے رحمتوں اور برکتوں کا اعتراف کرے ۔ اور ان کے مقام عبادت کو اپنے لئے مرکز ٹھہرائے ۔ اور اس آواز کو جو انہوں نے بلند کی تھی ساری دنیا میں پہنچا دے ۔ پھر جہاں حضرت ابراہیم ان فضائل ومحاسن سے متصف تھے وہاں یہودی نہایت ظالم ثابت ہوئے ۔ انہوں نے اسرائیلی تعلیمات کو فراموش کردیا ۔ اور دنیاکی حقیر خواہشات کو اپنا نصب العین ٹھہرایا ۔ یہ اس لئے تصریح فرمادی تاکہ یہودی باوجود اپنی بداعمالیوں کے اس انتساب سے ناجائز استفادہ نہ کریں ۔ اور یہ نہ کہیں کہ ہم چونکہ حضرت اسحاق کی اولاد ہیں اس لئے بغیر اعمال صالحہ کے فضائل ومحاسن کا استحقاق رکھتے ہیں ۔ قرآن حکیم نے جس نظریہ فضیلت کو پیش کیا ہے اس میں مورثی فضائل کا کہیں ذکر نہیں ۔ ہر شخص کو اپنے ذاتی مجد وشرف کا ذمہ وار ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ بزرگی وہ ہے جس کا تعلق براہ راست تمہارے اپنے اعمال سے ہے ۔