سورة يس - آیت 33

وَآيَةٌ لَّهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور ان کے لئے ایک نشانی (١) (خشک) زمین ہے جس کو ہم نے زندہ کردیا اور اس سے غلہ نکالا جس میں سے وہ کھاتے ہیں۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

فطرت کے انعامات ف 2: ان آیات میں مظاہر فطرات کی جانب متوجہ کیا ہے ۔ فرمایا ہے کہ تم دیکھوں عنایات الٰہیہ نے تمہیں کس درجہ مسنون کر رکھا ہے ۔ تمہارے کھیت جب سوکھ جاتے ہیں اور تمہارے باغات جب خشک اور خزاں پذیر ہوجاتے ہیں ۔ اس وقت اللہ اپنی قدرت کاملہ سے ان میں زندگی کی روح پھونک دیتا ہے ۔ اور وہ مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے ۔ پھر اس میں غلہ پیدا ہوتا ہے ۔ اور تم اس کو کھاتے ہو ۔ پھر یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ اس نے تمہارے لئے زمین میں عمدہ عمدہ باغات پیدا کر رکھے ہیں جن میں کھجوریں اور انگور ہوتے ہیں ۔ اور ان باغات میں چشمے جاری ہیں ۔ تم ان پھلوں کو کھاتے ہو ۔ حالانکہ اس میں تمہاری صنعت کاری کو کوئی دخل نہیں ۔ تو کیا وہ خدا اس لائق نہیں ۔ کہ تم اس کا شکر ادا کرو *۔ حل لغات :۔ لما ۔ اس جگہ حرف استشا کے معنوں میں ہے * اعناب ۔ عنب کی جمع ہے ۔ بمعنی انگور * العیون ۔ جمع ہے عین کی ۔ بمعنے چشمے *۔