أَأَتَّخِذُ مِن دُونِهِ آلِهَةً إِن يُرِدْنِ الرَّحْمَٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلَا يُنقِذُونِ
کیا میں اسے چھوڑ کر ایسوں کو معبود بناؤں کہ اگر (اللہ) رحمٰن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو ان کی سفارش مجھے کچھ بھی نفع نہ پہنچا سکے اور نہ مجھے بچاسکیں (١)۔
میں کیوں خدا کی عبادت نہ کروں ؟ ف 1: جب کسی قوم نے اللہ کے رسولوں کی مخالفت کی اور اس کے پیغام کو ٹھکرایا ۔ تو انہیں میں ایک مرد مومن اٹھا اور جس نے ان کی ہمنوائی کی ۔ اس نے کہا کہ اے قوم تم مجھے توحید پر ملامت کرتے ہو اور کہتے ہو کہ میں ایک خدا کی پرستش کیوں کرتا ہوں ۔ مجھے تو اس بات میں کوئی وجہ معقول نظر نہیں آتی ۔ کہ رب فاطر کو چھوڑ کر دوسروں کے سامنے جھکوں ۔ آخر کیوں نہ میں اس کی عبادت کروں ۔ جس نے مجھے وجوہ کی نعمت سے نواز ہے ۔ اور پھر بالآخر اسی کی جانب لوٹ جانا ہے ۔ کیا تمہاری رائے ہے ۔ کہ میں خدا کو چھوڑ دوں اور ایسے معبودان باطل کو اپنا خدا سمجھ لوں ۔ جن کا کائنات میں کوئی حصہ نہیں ۔ جو اختیارات سے محروم ہیں ۔ اور اگر مجھے کوئی تکلیف پہنچے تو اس کو دور نہ کرسکیں ۔ اور نہ دور کرنے کی سفارش کرسکیں ۔ اگر میں ایسی بےاختیار شخصیتوں کے سامنے سر نہ جھکاؤں تو کیا یہ کھلی گھراہی نہ ہوگی *۔ اس مرد مومن کے طرز استدلال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عقیدہ توحید کو اپنے ذاتی وجدان کے معیار پر رکھ رہا ہے ۔ اور وہ اپنے قلب کی آواز کو بیان کررہا ہے ۔ وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ میرا دل تو اس رب کے احسانات سے معمور ہے ۔ جو میرا مالک اور آقا ہے ۔ اب میں اس خدا کو جو میری ساری کائنات پر چھارہا ہے کیسے چھوڑ دوں ؟ کیا مٹی کے بیجان بتوں کے لئے ؟ پتھر کے بےحس مجسموں کے لئے ؟ مورتیوں کے لئے ۔ مجھے تو ان میں کوئی زندگی نظر نہیں آتی ۔ یہ کیونکر میری تکلیفوں کو دور کرسکیں گے ؟ ان اصنام میں یہ قدرت کہاں ہے کہ مصیبت زدہ انسان کی دستگیری کرسکیں ؟ پھر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ مرنے کے بعد اسی خدا کے حضور میں پیش ہونا ہے ۔ اگر اس نے پوچھا تو جواب کیا ہوگا ؟ جبکہ بت پرستی پر اپنا ہی دل مطمئن نہیں ۔ تو ہم کس طرح اللہ تعالیٰ کو اس کے متعلق مطمئن کرسکیں گے ۔ حقیقت تو یہ ہے ۔ کہ اگر انسان بالکل خالی الذہن ہوکر اس مسئلہ پر غور کرے اور خود اپنی فطرت کو راہنما ٹھہرائے تو ناممکن ہے کہ بجز توحید کے وہ کسی دوسرے مخالف نظرئیے کو تسلیم کرسکے *