اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ ۚ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ۚ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ ۚ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا
دنیا میں اپنے کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے، (١) اور ان کی بری تدبیروں کی وجہ سے (٢) اور بری تدبیروں کا وبال ان تدبیر والوں ہی پر پڑتا ہے (٣) سو کیا یہ اسی دستور کے منتظر ہیں جو اگلے لوگوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے (٤)۔ سو آپ اللہ کے دستور کو کبھی بدلتا ہوا نہ پائیں گے (٥) اور آپ اللہ کے دستور کو کبھی منتقل ہوتا ہوا نہ پائیں گے۔ ( ٦)
ف 2: وہ سب سے بڑا گناہ جس کی وجہ سے ان پر آسمان کو گرپڑنا چاہیے ۔ اور زمین کو پھٹ جانا چاہیے ۔ یہ ہے کہ انہوں نے باوجود عہد ومواثیق کیا للہ کے پیغام کو ٹھکرایا ۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تذلیل کی ۔ اور اپنے طرز عمل سے سخت نفرت اور بیزاری کا اظہار کیا ۔ حالانکہ کہتے یہ تھے ۔ کہ اگر ہمارے پاس کوئی نذیر آیا ۔ تو اس کا بڑھ کر خیرمقدم کریں گے ۔ اور تمام لوگوں سے زیادہ ہدایت حاصل کرینگے پھر صرف محرومی اور انکار پر بس نہیں کی ۔ کہ یہ ان کی شقاوت کے لئے کافی تھا ۔ بلکہ ازراہ کبر وغرور اس نوع کی مساعی بھی اختیار کیں جن سے حضور کو نقصان پہنچے ۔ اور اسلام کا علم سرنگوں ہوجائے ۔ فرمایا یہ لوگ اپنے ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ بری تدبیریں اور فریب کاریاں بالآخر انہی لوگوں کو گھیر لیں گی ۔ اور ان کی زندگی کو اجیرن کردیں گی ۔ ان لوگوں کو سنت اللہ کا انتظار ہے ۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے ۔ کہ اللہ کے قانون کے نفاذ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی *۔ یہ یاد رہے کہ سنت اللہ کا اطلاق قرآن میں صرف قانون تعذیب پر ہوتا ہے ۔ اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ مکافات احتمال کے ضابطے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ ہر قوم اور ہرگز وہ جب اللہ کے احکام کو ٹھکرا دے اور ان کی تذلیل کرے ۔ تو فطرت کی طرف لازم ہوجاتا ہے ۔ کہ ان کو وان کے اس طرز عمل کی سزا دے اور دوسروں کے لئے عبرت وموعظت کا سامان پیدا کرے *۔ حل لغات :۔ جھد ایمانھم ۔ پکی قسمیں * مکروالسئی ۔ بری تدبیر ۔ فریب کاری * لسنت اللہ ۔ سنت اللہ کے منے راہ ورش اور عادت کے ہیں ۔ سنت اللہ سے مراد ہے اللہ کا قانون مکافات اس لفظ میں یہاں استعمال کے لحاظ سے وہ عموم نہیں ہے ۔ جو بعض لوگوں نے سمجھ رکھا ہے *۔