أَفْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَم بِهِ جِنَّةٌ ۗ بَلِ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ فِي الْعَذَابِ وَالضَّلَالِ الْبَعِيدِ
(ہم نہیں کہہ سکتے) کہ خود اس نے (ہی) اللہ پر جھوٹ باندھ لیا ہے یا اسے دیوانگی ہے (١) بلکہ (حقیقت یہ ہے) کہ آخرت پر یقین نہ رکھنے والے ہی عذاب میں اور دور کی گمراہی میں ہیں۔ (٢)
تابشِ نظر (ف 1) پیغمبر کی نظروں میں الہام اور وحی کی وجہ سے اس درجہ تابش آجاتی ہے کہ وہ ان واقعات وحقائق کو اس طرح محسوس کرتے ہیں جو آئندہ کئی صدیوں کے بعد آنے والے ہیں جس طرح ہم موجودہ مناظر کو دیکھتے ہیں وہ ان کے متعلق محکم یقین رکھتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے جاننے کا ذریعہ کمزور استدلال نہیں ہوتا ۔ جس میں شک وشبہ کو اصلاً دخل نہیں ۔ وہ پیغمبر از بصیرت سے دیکھتے ہیں اور القاء وکشف سے حقائق وواقعات کو جانتے ہیں ان کے زمانے کے لوگ صرف الہام کی عظمت سے آگاہ نہیں ہوتے ۔ بلکہ پرلے درجے کےکوتاہ نظر بھی ہوتے ہیں ۔ وہ ان کی باتوں کو محض جنون اور کذب سمجھتے ہیں ۔ ان کی نظریں سلیحی ہوتی ہیں ۔ اس لئے وہ اس طرح کی باتوں کو سنتے ہیں تو ہنسی میں اڑا دیتے ہیں اور بالکل باور نہیں کرتے کہ یہ اپنے وعدوں میں سچے ہیں ۔ چنانچہ حضور (ﷺ) نے جب خدا سے اطلاع پاکر قیامت کی خبردی اور یہ بتایا کہ جس دنیا کو تم دائمی سمجھتے ہو اس کا طلسم ایک دن ٹوٹنے والا ہے اور اس کے بعد پھر دوبارہ یہ عالم انسانی ظہور پذیر ہوگا ۔ اور ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق سزا اور جزا ملے گی ۔ تو انہوں نے اس عقیدے کو بڑی حیرت کے ساتھ سنا ۔ کبھی تو اس میں شکوک وشبہات کا اظہار کیا کبھی انکار کیا اور کبھی یہ کہا کہ یہ باتیں تو محض جنون کی باتیں ہیں ۔ بھلا یہ کیونکر ممکن ہے کہ موت کے بعد ہم زندہ ہوجائیں ۔ فرمایا اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ جو آخرت کو نہیں مانتے ہیں اور عقبیٰ کے حقائق کا انکار کرتے ہیں ذہنی اور فکری عذاب میں مبتلا ہیں ۔ ان سے بصیرت چھن چکی ہے ۔ یہ غور تفحص کی تمام استعدادوں سے محروم ہوچکے ہیں ۔ اور گمراہی کی اس منزل میں ہیں ۔ جہاں پہنچ کر انسان ہدایت سے بہت دور ہوجاتا ہے ۔