سورة الأحزاب - آیت 72

إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں اور زمین پر پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے (مگر) انسان نے اٹھا لیا (١) وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے (٢)۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

عرضِ امانت (ف 1) امانت سے مراد عقل وشریعت کی ذمہ داری ہے اورعَرَضْنَاسے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب کائنات کو پیدا کیا تو دیکھا کہ کیا آسمانوں کی بلندیاں ، اور زمین کی وسعتیں اور پہاڑوں کا استحکام اس قابل ہے کہ ان چیزوں پر عقل وشریعت کی ذمہ داریاں ڈال دی جائیں ۔ اور ان کو اپنے صفات حسنہ کا مظہر بنایا جائے ان کی فطرت کو ٹٹولا گیا ۔ تو معلوم ہوا کہ ان سب میں یہ اہلیت نہیں ہے ۔ پھر انسانی مشت خاک پر نظر پڑی ۔ تو معلوم ہوا کہ یہ باوجود کائنات میں بہت زیادہ کمزور اور نحیف ہونے کے اپنی فطرت واطوار کے لحاظ سے اس قابل ضرور ہے کہ تکلیفات شرعیہ کو اٹھا لے اور دنیا میں خلافت الٰہیہ کا علم بردار ہو ۔ چنانچہ یہ امانت کا بار گراں اس کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ۔ اور اس نے اس کو اٹھا لیا ۔ آسماں بار امانت نتوانست کشید قرعہ فال بنام من دیواد تودمہ غرض یہ ہے کہ حضرت انسان کو فطرت نے ازل سے اس خدمت کے لئے منتخب کررکھا تھا ۔ اس لئے ضروری ہے کہ یہ اس منصب جلیل کا اہل ثابت ہو اور اپنے فکروعمل سے آسمانوں اور زمین پر بستیوں اور بلندیوں پر اپنا تفوق ثابت کردے ۔ یہ ایک پیرایہ بیان ہے انسانی فضیلت کے اظہار کا اور حقیقت یہ ہے کہ اس سے زیادہ بلیغ اسلوب اختیار کرنا انسانی وسعت کے باہر ہے ورنہ معاذ اللہ یہ مقصد نہیں ہے کہ خدائے تعالیٰ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ دنیا میں کون شریعت کے اس بار کو اٹھا سکتا ہے اور کون نہیں اٹھا سکتا ۔ اس سورت میں ظَلُومًااور جَهُولًاکا لفظ بطور طنز کے نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ انسانی فطرت کا عین تقاضا تھا کہ وہ رشدوہدایت کا محتاج ہو ۔ اور فکر و شریعت کی راہ نمائی کو قبول کرلے ۔ اس کے لئے اور کوئی چارہ ہی نہیں بجز اس کے کہ اس امانت عزیز کا بسر وچشم متحمل ہوجائے اور اس پر اپنی برتری کو محسوس کرے ۔ جو اس کائنات کی تمام چیزوں پر حاصل ہے ۔ یہاں انسانی شرف ومجد کا ذکر ہے ۔ لہٰذا اس کے معنی یہاں ترحم اور تلطف کے ہونگے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دیکھو یہ ظالم اور ناعاقبت اندیش انسان کس درجہ رحم کے قابل ہے کہ اس گراں بہا ذمہ داری کو تنہا اٹھا لینے کا مدعی ہے ۔ حل لغات : يَحْمِلْنَهَا۔ حمل کے معنی یہ بھی ہوتے ہیں کہ وہ بوجھ اور ثقل سے عہد برآہ نہ ہوسکا ۔ اس صورت میں آیت کا مطلب بالکل بدل جائے گا اور یوں ہوگا کہ ہم نے آسمان زمین اور پہاڑوں کے فطری ثقل یا فرائض کو ان پر پیش کیا انہوں نے عہدہ براء ہونے سے انکار کردیا ۔ بمعنی اپنے ان فرائض کو قبول کرلیا ۔ جو اللہ نے ان پر عائد کئے تھے اور وہ اللہ کے خوف سے معمور ہوگئے مگر انسان نے عہدہ برآہ ہونے کے لیے یعنی اپنے مفوضہ فرائض کو ادا نہ کیا اس لئے یہ ظالم ہے اور جاہل ہے ۔