ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہ ہے پھر اگر تمہیں ان کے (حقیقی) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں، (١) تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہوجائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں (٢) البتہ گناہ وہ ہے جسکا تم ارادہ دل سے کرو (٣) اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا ہے۔
(ف 1)ان آیات میں دراصل ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔ اور ان غلط فہمیوں کو دور کیا گیا ہے جو اس واقعہ سے وابستہ تھیں ۔ واقعہ یہ تھا کے حضور (ﷺ) نے نبوت کے پہلے ازراہ شفقت زید بن حارث کو جو کہ غلام تھے اپنا متبنیٰ قرار دیا تھا ۔ اور اس نسبت نے یہاں تک شہرت حاصل کی کہ ان کو عام طور پر زید بن محمد (ﷺ) کے نام سے یاد کیا جانے لگا ۔ حضور (ﷺ) کو یہ بہت عزیز تھے اور آپ چاہتے تھے کہ ان کے رتبہ کو سوسائٹی میں بلند کردیا جائے ۔ اور لوگوں کو بتایا جائے کہ غلام بھی جب اسلام کی آغوش میں آجاتے ہیں تو کس درجہ رفیع مرتبت ہوجاتے ہیں ۔ چنانچہ آپ نے حضرت زینب کو زید کے نکاح میں دے دیا ۔ پھر اتفاق یہ ہے کہ دونوں کی آپس میں نہ نبھ سکی ۔ زید ان سے حقوق زوجیت کی بنا پر بہت زیادہ خدمت کے متوقع تھے ۔ اور زینب بالطبع یہ چاہتی تھیں کہ مرتبہ ومقام کے لحاظ سے زید ان کو عزت واحترام کی نگاہوں سے دیکھیں ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں میں جدائی ہوگئی ۔ اب حضرت زینب ملول تھیں ۔ حضور (ﷺ) نے ان کی دلجوئی کے لئے اور نیز اس لئے کہ متبنی کی رسم کو توڑا جائے ۔ ان کو اپنے حرم میں داخل کرلیا ۔ اور اس طرح انہیں امہات المومنین کی مقتدر جماعت میں شمول کا موقع مل گیا ۔ ادھر مخالفین نے یہ کہنا شروع کردیا کہ محمد (ﷺ) نے اپنی بہو سے شادی کرلی ہے ۔ جو ان کے یہاں مذموم رسم تھی ۔ قرآن کی ان آیات میں ان کے خیال کو غلط بتلایا ہے ایک طرف تو حضور (ﷺ) سے خطاب ہے کہ آپ ان لوگوں کے خیالات اور جذبات کے تابع نہیں ہیں ۔ اور آپ کے پہلو میں جو دل ہے اس میں صرف اللہ کی خشیت کا جلوہ ہے ۔ اس لئے آپ ان لوگوں کے طعن وتشنیع سے ذرہ برابر دل برداشتہ نہ ہوں ۔ دوسری طرف ان مخالفین سے کہا کہ کم بختو ! کیا تم اتنی سی بات کو نہی سمجھتے کہ عرف اور حقیقت میں ایک نمایاں فرق ہوتا ہے ! وہ شخص جس کو آپ اپنے عرف میں بیٹا کہتے ہیں ۔ کیا وہ اپنی فطرت کے اعتبار سے وہی بیٹا ہوسکتا ہے ۔ جو حقیقی بیٹا ہوتا ہے ۔ جس طرح ظہار کی صورت میں تم اپنی بیویوں کو اپنی مائیں بہنیں قرار دے لیتے ہو اور وہ فی الواقع تمہاری مائیں نہیں ہوجاتی ہیں ۔ اسی طرح لے پالک بیٹے بھی معاشرت انسانی میں وہ درجہ حاصل نہیں کرسکتے اور ان کے ساتھ وہ حقوق وابستہ نہیں ہوتے جو بیٹوں کے متعلق ہوتے ہیں ۔ اس لئے تمہیں چاہیے کہ تم اپنے اعتراضات کو واپس لے لو ۔ اور آئندہ کسی شخص کو اس کے مفروضہ باپ کی طرف منسوب نہ کرو ۔ کیونکہ یہ عرف پھر آئندہ چل کر بہت سی غلط فہمیوں کا موجب بن جاتا ہے ۔ اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کا باپ کون ہے ۔ تو اخوت دینی کا رشتہ کافی ہے ۔ انہیں اپنا بھائی کہو ۔ حل لغات : أُولُو الْأَرْحَامِ ۔ رشتہ دار