فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
اس لیے جو شخص آپ کے پاس اس علم کے آ جانے کے بعد بھی آپ سے اس میں جھگڑے تو آپ کہہ دیں کہ آؤ ہم تم اپنے اپنے فرزندوں کو اور ہم تم اپنی اپنی عورتوں کو اور ہم تم خاص اپنی اپنی جانوں کو بلا لیں، پھر ہم عاجزی کے ساتھ التجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں۔ (١)
مباہلہ : (ف ١) مسیح (علیہ السلام) کے متعلق آیات سابقہ میں بکرات یہ بیان کیا جا چکا کہ ان کی حیثیت ایک محترم ومکرم رسول سے زائد نہیں مگر عیسائی ہیں کہ غلو سے کام لیتے ہوئے انہیں ابن اللہ سمجھنے پر مصر ہیں ، ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب مگر آخری فیصلہ کی طرف دعوت دی ہے اور وہ یہ ہے کہ دونوں متخاصم مل کر اللہ سے جھوٹے کی ہلاکت چاہیں اور دیکھیں کہ خدا کس کی تائید میں ہے ، کون باقی رہتا ہے اور کس کے حق میں ہلاکت مقدر ہے ، یہ طریق فیصلہ اس وقت اختیار کیا گیا جب منطق وبرہان کے تمام حربے ناکام رہے اور عقیدت میں غلو ہر دلیل وفلسفہ پر غالب رہا ، جب بحث کے تمام دروازے بند ہوگئے اور غور وفکر کے لئے تمام راہیں تعصب وجہالت کی وجہ سے مسدود ہوگئیں ، ظاہر ہے ان حالات میں ایک زبردست انسان کے لئے سوا اس کے چارہ ہی کیا رہتا ہے کہ وہاحکم الحاکمین کی پیشگاہ وعدل وانصاف میں حاضر ہو اور داد خواہ ہو ۔ احادیث میں آیا ہے کہ جب وفد نجران سے گفتگو ہوئی اور نجران کے عیسائیوں نے ضد سے کام لیا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعوت مباہلہ دی ، انہوں نے کہا ہم سوچ کر کل اس کا جواب دیں گے اور دوسرے دن مقابلہ میں آنے سے انکار کردیا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، اگر وہ میدان مباہلہ میں آجاتے تو ان پر آسمان سے آگ برسائی جاتی اور ایک بھی ان میں سے بچ کر نہ جاتا ، اسلام سے پہلے طریق فیصلہ میں مباہلہ کا ذکر نہیں ، جس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کو اپنی حقانیت پربیش از بیش یقین ہے اور اصرار ہے اور وثوق ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت اس کی تائید ونصرت میں کار فرما ہے ، کیا عین الیقین کی یہ صورت کوئی دوسرا مذہب پیش کرسکتا ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد پھر مباہلہ جائز ہے یا نہیں ۔ علامہ دوانی نے اس پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے اور ثابت کیا ہے کہ امور مہمہ شرعیہ میں مباہلہ کرنا اب بھی درست ہے ۔ (کذا فی ردالمختار المعروف بہ شامی) آیت کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ مباہلہ ان امور میں ہونا چاہئے جو اصولی ہوں اور کفر واسلام میں دائر ہوں اور انکا مبنی برحق ہونا از قبیل قطعیات ہو ، اس لئے فرمایا (آیت) ” من بعدما جآءک من العلم “۔ اور مجتہدات فقہیہ میں اختلاف رائے مباہلہ تک نہ پہنچے تو اچھا ہے ۔ (آیت) ” نسآء نا ونسآء کم میں پہلی ازواج اور پھر دوسری عورتیں ثانوی حیثیت سے داخل ہیں ، اسی طرح ” ابنآء نا “ کا لفظ مجازا دوہتوں اور پوتوں کے لئے استعمال ہوا ہے ، مقصد یہ ہے کہ امہات المومنین آیت مباہلہ میں بطور اولین مفہوم کے داخل ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں انتخاب میں نہیں لیا اور صرف حضرت فاطمہ (رض) پر اکتفا کیا ۔ حل لغات : نبتھل : مادہ ابتھال ۔ بتضرع آرزو کرنا ۔