وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
بالیقین ہم انھیں قریب کے چھوٹے سے بعض عذاب (١) اس بڑے عذاب کے سوا چکھائیں گے تاکہ وہ لوٹ آئیں (٢)
ایمان کی مخالفت فسق وفجور ہے : (ف 1)مومن کے مقابلہ میں فاسق کو رکھا ہے ۔ اور فرمایا ہے کہ مومن اور فاسق درجہ میں برابر نہیں ہیں ۔ اس لئے کہ قرآن اس حقیقت کو پیش کرنا چاہتا ہے کہ دنیا میں اگر نیکی اور تقویٰ کی روح پھیل سکتی ہے تو صرف ایمان سے ۔یہ تسلیم کرلینے سے کہ اس کائنات کو پیدا کرنے والا ایک احکم الحاکمین خدا ہے اور موت کے بعد محاسبہ قطعی ہوگا ۔ اور ظالم سے ظالموں کی نسبت باز پرس کی جائے گی ۔ اور محمد (ﷺ) اللہ کے آخری رسول ہیں ۔ اور ان کا پیغام آخری پیغام ہے اگر ان حقائق کو تسلیم نہ کیا جائے ۔ تو انسان میں کبھی سچی ذمہ داری کا احساس پیدا نہیں ہوسکتا اور کبھی وہ صحیح معنوں میں اپنے دل میں تقوی اور پاکبازی کے جذبات بلند کو نہیں پاسکتا ممکن ہے دہریت سائنس کو ارتقاء بخشے ۔ مادیت کو فروغ دے ۔ مگر یہ ناممکن ہے کہ اس انکار سے اخلاق حسنہ کی تعمیر ہوسکے ۔ روح ترقی کے منازل طے کرسکے ۔ باطن صاف ستھرا اور پاکیزہ ہوسکے ۔ کیونکہ اخلاق کے ارتقاء اور روحانیت کی بلندی کے لئے جن عناصر کی ضرورت ہے ۔ وہ دہریت میں قطعی مفقود ہیں ۔ آج یورپ میں کیا کچھ نہیں ہے ۔ قوت ہے ۔ علم وحکمت ہے ۔ دولت ہے ۔ اور ہر قسم کی آسودگی مہیا ہے جو مادی دنیا میں متصور ہوسکتی ہے ۔ مگر اس سارے شور ترقی اور غوغائے ارتقاء میں کہیں ذرہ بھر اخلاق کا پتہ نہیں ملتا ؟ وہ اخلاق نہیں جسے ایٹی کیٹ (فوائد رسمیہ) سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ ظاہری نشست وبرخاست کے قاعدے اور قوانین نہیں ۔ بلکہ وہ پاکیزگی ۔ تقوی ۔ اللہ کا ڈر ۔ عفاف صداقت شعاری اور ایسی چیزیں جن کی طرف ایمان بالخصوص دعوت دیتا ہے ۔ آپ دیکھیں گے کہ اس برق وہوا کی دنیا میں ان چیزوں کا کہیں شائبہ تک نہیں ۔ کیونکہ یہ لوگ ایمان کو چھوڑ چکے ہیں ۔ اندرین حالات فسق وفجور کا ارتکاب لازم ہے ۔ ایمان سے دوری اور بعد کا منطقی نتیجہ عصیان وبدکرداری ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس طرح یہ لوگ اعمال کے لحاظ سے برابر نہیں ہوسکتے ۔ جو لوگ ایمان کی نعمت سے بہرہ ور ہیں ۔ جن کے دل روشن ہیں ۔ اور خدا کی نظر میں نیک اور پارسا ہیں ۔ وہ جنت میں مہمانی کے لطف اٹھائیں گے ۔ اور حسین اعمال کی حسین ترین جزاکو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ۔ اور جو فاسق ہیں جن کے دل کفر کی وجہ سے تاریک ہیں جو صداقت سے محروم ہیں ان کا ٹھکانا آگ ہے ۔ وہ گھبرا کر اس سے نکلنے کی کوشش کریں گے مگر کامیاب نہ ہوں گے ۔ ان سے کہا جائے گا کہ جس دوزخ کے عذاب کو تم جھوٹ سمجھتے تھے اس کے مزے چکھو ۔ اور مزید براں تمہیں دنیا میں بھی فسق وفجور کی سزا مل کرر ہے گی ۔ اور اس بڑے عذاب سے پہلے پہلے تم اس قریب کے عذاب کو بھی دیکھ لو گے ۔ فطرت کی گرفت سے بچنا محال ہے ۔ اس دنیا میں خوب سمجھ سوچ لو اور عارضی لذات کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب کو اختیار نہ کرو ۔ حل لغات : دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ۔ دون کے معنی سوا کے بھی ہوتے اور درے اور پہلے کے بھی ۔ یہاں دوسرے معنی مراد ہیں یعنی عذاب اکبر سے قبل ۔