وَقَالُوا أَإِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۚ بَلْ هُم بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ كَافِرُونَ
اور انہوں نے کہا کیا جب ہم زمین میں رل مل جائیں گے (١) کیا پھر نئی پیدائش میں آجائیں گے؟ بلکہ (بات یہ ہے) کہ وہ لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات کے منکر ہیں۔
ف 1: جب یہ مجرم سرجھکائے ہوئے اللہ کے حضور میں پیش ہونگے اس وقت انہیں احساس ہوگا ۔ کہ ہم نے خدا کی نافرمانی کرکے بہت بڑے ظلم کا ارتکاب کیا ۔ اس لئے وہ خواہش کریں گے کہ خدایا ہمیں ایک بار اور دنیا میں جانے کا موقع دیا جائے ۔ پھر دیکھئے کہ کس طرح ہم تیرے نیک اور پاک باز بندے بن جاتے ہیں ۔ جواب ملے گا کہ کائنات کا نظام پہلے سے مقدر اور متعین ہے ۔ اس میں کوئی ترمیم اور تنسیخ نہیں ہوسکتی اگر منظور ہوتا کہ کوئی شخص گمراہ نہ ہو ۔ تو ہم سب کو دنیا ہی میں ہدایت سے بہرور کردیتے ۔ مگر ایسا نہیں ہے ۔ اس دنیا کی زینت کا اختلاف اور بوقلمونی سے ہے جب میں نے کہہ دیا تھا ۔ کہ جو شخص شیطان کی پیروی کرے گا ۔ وہ ضرور جہنم میں جائے گا ۔ لاملئن جھنم منک و ممن تبعک تو اس قول کو پورا ہونا چاہیے ۔ اور بقضائے انصاف تم لوگوں کو جہنم میں جانا چاہیے ۔ جاؤ۔ اور جہنم کا عذاب چکھو ۔ تم نے دنیا میں ہمیں بھلا رکھا تھا ۔ آج ہم تم سے اس طرح کا معاملہ کریں گے ۔ کہ گویا ہم تم کو بھول گئے ہیں *۔ ف 2: ان آیتوں میں صحابہ کرام کے مرتبہ ایمان کا ذکر ہے ۔ کہ کیونکر وہ خدا کے احکام سن کر کس طرح ان پر رقت طاری ہوجاتی ہے ۔ یہ کہ اس محبت کا تذکرہ ہے ۔ جو ان کو خدا کے ساتھ ہے ۔ کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر مولا کی یاد میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ ان کے پہلو خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں ۔ خدا سے ڈرتے ہیں ۔ اور اس کی رحمتوں کے امیدوار رہتے ہیں ۔ اور جو کچھ خدا نے انہیں دے رکھا ہے ۔ اس کو اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں *۔