وَمَن كَفَرَ فَلَا يَحْزُنكَ كُفْرُهُ ۚ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
کافروں کے کفر سے آپ رنجیدہ نہ ہوں (١) آخر ان سب کا لوٹنا تو ہماری جانب ہی ہے پھر ہم ان کو بتائیں گے جو انہوں نے کیا، بیشک اللہ سینوں (٢) کے بھید (٣) تک سے واقف ہے۔
عروۃ الوثقیٰ (ف 2)اس سے قبل کی آیات میں فرمایا تھا کہ جو شخص فکر خیال سے لے کر حرکت وعمل تک سب چیزوں کو بر بنائے اخلاص وعقیدت اللہ کے تابع کردیتا ہے ۔ وہ عقائد کے مضبوط ترین حلقے کو تھام لیتا ہے ۔ اس مقام بلند پر فائز ہونے کے بعد اس کے لئے رسوائی اور ضلالت کا کوئی اندیشہ باقی نہیں رہتا ۔ جو شخص یہ سمجھ لے کہ میری سمجھ بوجھ میرے جذبات اور میری خواہشات نفس سب کی سب اللہ کے ارادہ اور اس کی منشاء کے ماتحت ہیں ۔ اس کی رضا میں میری نجات ہے اس کی خوشی میری زندگی کا نصب العین ہے ۔ اور اس کی مرضی پر میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوں ۔ ایسا شخص فکروعقیدہ کی ایسی مضبوط چٹان پر کھڑا ہے کہ تزلزل کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہتا ۔ اور اس کے برخلاف جس کو اپنی عقل پر ناز ہے جس کی خواہشات نفس اس پر مسلط ہیں ۔ جو اللہ کے حکموں کی پرواہ نہیں کرتا ! اور حقائق کا منکر ہے ۔ وہ گمراہ ہے ۔ ان آیتوں میں فرمایا ہے کہ ایسے آدمی کے لئے آپ کیوں دکھ برداشت کریں ۔ وہ شخص جو عمداً ہدایت سےاعراض کرتا ہے قطعاً آپ کی شفقتوں کا مستحق نہیں ہے ان کے لئے ذرہ برابر فکر مند نہ ہوں ۔ ﴿فَلَا يَحْزُنْكَ كُفْرُهُ ﴾سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور (ﷺ) بالطبع کفر سے منتفر تھے اور آپ کو بڑی کوفت معلوم ہوتی تھی ۔ جب کوئی شخص اپنے لئے گمراہی کو پسند کرلیتا تھا ۔ آپ کے دل میں اس درجہ انسانیت سے ہمدردی تھی کہ آپ مخالفین کو بھی غلط راستے پر دیکھ کر بےقرار ہوجاتے تھے ۔ دل سے چاہتے تھے کہ وہ کفر کو چھوڑ رشدوہدایت کی برکتوں کاحامل ہوجائے ۔ فرمایا ہے کہ ان سب لوگوں کو ہمارے پاس آنا ہے ۔ انہیں بتائیں گے کہ انہوں نے کیا کیا کارہائے نمایاں دنیا میں کئے ہیں ۔ ہم ان کے تمام اسرار سے آگاہ ہیں ۔ ان کو دنیا میں تو موقع دینگے وہاں کی نعمتوں سے بہرہ مند ہولیں ۔ مگر بالآخر ان کے لئے عذاب مقدر ہے ۔ حل لغات : بِالْعُرْوَةِ۔ ہر چیزکا کنارہ اور راستہ ۔