وَلَئِنْ أَرْسَلْنَا رِيحًا فَرَأَوْهُ مُصْفَرًّا لَّظَلُّوا مِن بَعْدِهِ يَكْفُرُونَ
اور اگر ہم باد تند چلا دیں اور یہ لوگ انہی کھیتوں کو (مرجھائی ہوئی) زرد پڑی ہوئی دیکھ لیں تو پھر اس کے بعد ناشکری کرنے لگیں (١)۔
حشرونشر ف 1: قرآن کا طرز استدلال اتباسا اور اتنا موثر ہے کہ اس میں زیادہ غوروفکر کی ضرورت ہی نہیں ۔ جہاں آپ نے سنا دل میں اتر گیا مظاہر قدرت کو قرآن پیش کرتا ہے ۔ جن کو ہم روزانہ دیکھتے ہیں ۔ اور کوئی حرف مدار کا پہلو ہمارے ذہن میں پیدا نہیں ہوتا ۔ پھر ان سے اتنے چھوٹے انداز میں بڑے بڑے فلسفیانہ مسائل کا استباط کرتا ہے کہ وہی معمولی واقعات منطق کی شہادتیں معلوم دیتی ہیں *۔ مکہ والوں میں ایک گروہ احیاء موتیٰ کا منکر تھا ۔ یعنی اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ کیونکر فنائے عام کے بعد پھر انسانوں کے عساکر اٹھ کھڑے ہونگے ۔ وہ حشرونشر کے واقعات کو محض افسانہ سمجھتے تھے ۔ اور ان کی رائے میں یہ حقیقت قرآن عقل نہیں تھی ۔ کہ موت کو پھر زندگی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ! اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ان کے اس عقلی استبعاد کو دور کرنے کے لئے کئی دلائل بیان فرمائے ہیں اور بتایا ہے کہ جس چیز کو تم محال سمجھتے ہو اس کے مثل تم زندگی میں بار بار دیکھتے ہو مگر سرسری نظروں سے غوروفکر سے کام نہیں لیتے ! آؤ ہم تمہیں دکھائیں ۔ کہ روز مرہ کے حقائق ہمارے اس دعوے کے لئے بطور رہ دلیل کے کام آسکتے ہیں ۔ ہواؤں کو چلتے ہوئے تم نے دیکھا ہوگا یہی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں اسنے دوش پر ابروسیماب کی روئیں اوڑھے کس طرح فضا میں چلتی پھرتی رہتی ہیں ۔ اور پھر کس طرح ساری فضا میں پھیل جاتی ہیں ۔ پھر کہ ہائے ابر کی صورت میں منقسم ہوجاتی ہیں ۔ پھر پرستی ہیں ۔ اس نظام وعمل کو دیکھ کر خدا کے بندے خوش ہوتے ہیں ۔ ان کی مایوسیاں امیدوں سے بدل جاتی ہیں ان آثار رحمت پرغور کرو ۔ کیا اس طرح مردہ اور خشک کھیتوں میں زندگی کی روح نہیں پیدا ہوجاتی *۔ پھر اگر یہ ممکن ہے بلکہ مشاہدہ ہے تو کیا وہ اپنی قدرت اور رحمت کے چھینٹوں سے دوبارہ انسانی پودوں کو پیدا نہیں کرسکتا ! کیا وہ ہر چیز پر قادر نہیں ہے ، دیکھو کتنے عظیم الشان واقعات ہیں اور اس استدلال نے ان کو کس درجہ اہمیت دے دی ہے ۔ کیا اب بھی حشرونشر کے حالات کا انکار کروگے *۔