لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِن فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ
تاکہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے فضل سے جزا دے جو ایمان لائے اور نیک (١) اعمال کئے وہ کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔
خدا انسان کا حریف نہیں ہے ف 1: ان آیتوں میں بتایا ہے ۔ کہ جہاں تک کفر وانکار کا تعلق ہے اس سے ذات صویت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ۔ اسی طرح ایمان واعمال صالح سے اس کی جلالت قدر میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا * اگر ساری دنیا کفر وطغیان کو اپنا شیوہ بنا لے ۔ اور برملا خدا کا انکار کردے ۔ تو اس کے وجود باجود میں اور اس کے تحفق * قومیت میں ذرہ برابر فرق نہیں ہوتا ۔ اسی طرح اگر دنیا میں کوئی منکر نہ رہے تمام ملحد اپنے غلط عقائد سے توبہ کرلیں ۔ اور مومن صادق بن جائیں ۔ اور زہد وورع کا لباس زیت تن کرلیں ۔ تو اس کی عظمت اور رفعت میں کچھ بھی ترقی نہیں ہوتی ۔ یہ کفروعصیاں تو محض اس لئے مذموم ہے ۔ کہ اس سے خود انسان کو دیکھ پہنچتا ہے ۔ یہ تمدن صالحہ کے لئے سخت مضر ہے ۔ اور اس کی وجہ سے نوع انسانی اپنے مقام روحانی سے گر کر حیوانیت کے اسفل گڑھوں میں جاپڑنی ہے کفر چونکہ سراسر فسادواختلال ہے ۔ کون ومکان کے لئے اس کا وجود باعت لعنت ہے ۔ اس لئے اس سے پرہیز لازم ہے ۔ ورنہ منکر اور خدائے برتر وغالب کے لئے کسی طرح حریف بن سکتے ہیں اسی طمع نیکی اور تقویٰ اور اس کے لائق ملتناء ہیں ۔ کہ ان سے روح انسان میں جلا پیدا ہوتی ہے ۔ ان سے اخلاق سنورتے ہیں اور خود انسانیت بلند ترین روحانی مقامات پر ممکن ہوتی ہے ۔ ورنہ اس ذات بےنیاز کو ہمارے تقوے اور پرہیزگاری کی کیا ضرورت ہے ! انہ لا یحب الکفرین سے غرض یہ ہے کہ گو وہ باعتبار تکوین کے کافروں اور منکروں سے تعرض نہیں کرتا ۔ اور ان کے افعال واعمال میں مزاحم نہیں ہوتا مگر اس کے یہ معنے نہیں ہیں ۔ کہ وہ ان کے اعمال کو پسند بھی کرتا ہے اور وہ ان کو باوجود سرکشیوں کے محبوب بھی رکھتا ہے ۔ کائنات کی مصالح کا تقاضا ہے کہ منکر کو انکار میں اور مومن کو ایمان میں پوری پوری آزادی بخشی جائے اس لئے وہ برائی کی طرف بڑھنے والوں کو روک تو نہیں دیتا ہے مگر اس کی خواہش یہی ہے کہ اس کے بنا سے کفر سے بچیں اور ایمان وتقویٰ کی دعوت کو قبول کریں *۔