وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
تم جو سود پر دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں بڑھتا رہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں نہیں بڑھتا (١) اور جو کچھ صدقہ زکوٰۃ تم اللہ تعالیٰ کا منہ دیکھنے (اور خوشنودی کے لئے) دو تو ایسے لوگ ہی ہیں اپنا دوچند کرنے والے ہیں (٢)۔
سود خواروں کی دولت ف 2: سود خوار لوگ قوم کے لئے اس لئے باعث لعنت ہوتے ہیں ۔ کہ ان کی دولت اور ثروت ملی ضروریات میں صرف نہیں ہوتی ، وہ دن رات مال جمع کرنے کی فکر میں غلطان وییچان رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ رقم جو ہم خیرات اور صدقات کے نام سے دینگے بالکل ضائع جائیگی ۔ کیوں نہ یہ رقم سود میں لگادی جائے تاکہ مزید نفع ہو ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ بدبختو ! تم اس حقیقت کو سمجھتے ۔ کہ چاندی اور سونے کے ان ڈھیروں سے کیا فائدہ ، جو سفر آخرت میں تمہارے کام نہ آسکیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمہاری دولت جس طرح دنیا کے کاموں کو سنوارتی ہے اسی طرح عقبے کے کام بھی سنوارے ۔ اور تمہارے لئے مرجب خیروبرکت ہو ۔ اور وہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ تم اپنے مال ودولت کے ذخیروں سے قوم کے غریبوں اور مسکینوں کو فائدہ پہنچاؤ۔ درحقیقت دولت کا یہی حصہ جو تم خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہو محفوظ رہتا ہے اور بڑھتا ہے ۔ یہی تمہارے لئے ثواب واجر کا باعث ہے ۔ اور وہ جو بنکوں میں جمع ہے ۔ اور جس سے تمہیں بہت آمدنی ہوتی ہے محض ضائع جاتا ہے ۔ تمہارے مرجانے کے بعد تمہیں اس سارے ذخیرہ سیم وزر میں سے ذرہ برابر نفع نہیں پہنچے گا ۔ بلکہ اور موجب عذاب ہوگا *۔ حل لغات :۔ وجہ اللہ ۔ اللہ کی رضا *۔