فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ
مگر جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کرلیا (١) تو کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے (٢) حواریوں (٣) نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہیے کہ ہم تابعدار ہیں۔
آپ (علیہ السلام) کے اصحاب ارادت : (ف ٢) حضرت مسیح (علیہ السلام) کی یہ تعلیم توحید وروحانیت یہودیوں کو ناگوار محسوس ہوئی ، اس لئے انہوں نے پوری طرح مخالفت کی ٹھان لی حکومت وقت کو آپ کے خلاف آمادہ تعزیر کیا ۔ اس پر آپ (علیہ السلام) نے مخلصین کی ایک جماعت کو دعوت ارادت دی اور (آیت) ” من انصاری الی اللہ “۔ کا نعرہ لگایا ، جس کو سن کر حواریین نے لبیک کہا اور نصرت واعانت کا مضبوط عہد کیا ۔ قرآن حکیم نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو تقدیس کے ساتھ ساتھ حواریوں کو بھی شرف خلعت سے نوازا ، مگر انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کے حواریوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو دھوکا دیا اور گرفتار کرا دیا اور انکار کیا ، معلوم ہوتا ہے یہ تحریف ہے ۔ حل لغات : حواریون : جمع حواری ، مخلص دوست ، ارادت مند ۔ مکروا : مصدر مکر ، معنی تدبیر محکم وخفیہ ۔ توفنی : پورا پورا دے گا ، (آیت) ” انی متوفیک “۔ کے معنی پورا پورا لے لینا بھی ہے یعنی میں تمہیں بحفاظت تمام لے لوں گا ۔ ورافعک : کے معنی ہوں گے تعبین نوع کے عینی ، توفی بصورت رفع واقع ہوگی ۔