فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کردیں (١) اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (٢) اس اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں (٣) یہی سیدھا دین ہے (٤) لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ (٥)
مذہب کا جدید ترین معیار ف 3: آج مذہب کے لئے جدید ترین معیار صداقت یہ ہے کہ وہ فطرت کے آئین کے مطابق ہو ۔ آج یہ سمجھا جاتا ہے ۔ کہ ان قوانین میں جو مہروماہ میں اور جبل وکاہ میں کافر ما ہیں ۔ اور ان اخلاقی قوانین کے متبع وسرچشمہ میں کوئی فرق نہیں ۔ جن کو ہم شریعت یا مذہب کہتے ہیں ۔ وہ قلیم مادیت کے ضابطے ہیں ۔ اور یہ دنیائے روحانیت کے قواین ۔ دونوں کا سرچشمہ فطرت اور اس کا غیر مبدل حسن ہے ۔ قرآن حکیم نے آج سے چودہ سو سال قبل اس حقیقت کو اتنا جامع اور واضح الفاظ میں بیان کیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے ۔ مذہب کا اتنا تخیل اور اتنا واضح انداز بیان ! یہ اس بات کی دلیل ہے ۔ کہ قرآن اس ذات کا کلام ہے جس کی نظر زمان ومکان کی بعید ترین ومعقول سے بھی کہیں آگے ہے ۔ ارشاد ہے ۔ کہ اطاعت وفرمانبرداری کا جذبہ فطری ہے ۔ اور غیر مبدل اور یہی این قلیم ہے مگر اکثر لوگ اس حقیقت سے آگاہ نہیں ۔ اور وہ مذہب کو اس نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھتے *۔