سورة الروم - آیت 28

ضَرَبَ لَكُم مَّثَلًا مِّنْ أَنفُسِكُمْ ۖ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنتُمْ فِيهِ سَوَاءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک مثال خود تمہاری ہی بیان فرمائی ہے، جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے کیا اس میں تمہارے غلاموں میں سے بھی کوئی تمہارا شریک ہے؟ کہ تم اور وہ اس میں برابر درجے کے ہو؟ (١) اور تم ان کا ایسا خطرہ رکھتے ہو جیسا خود اپنوں کا ہم عقل رکھنے والوں کے لئے اسی طرح کھول کھول کر آیتیں بیان کرتے ہیں۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

انتہائی ذلت ف 2: کس قدر تکلیف دہ تخیل ہے کہ انسان انسان کے سامنے جھکے اور اس درجہ اس کو عزت وتکریم کا مستحق سمجھے کہ اس کی پوجا کرے اور اس سے ڈرے اور دل میں اس کا خوف رکھے ۔ اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں کہ کیا مالک اور مملوک کا درجہ برابر ہے ۔ کیا غلام آقا کی برابری کرسکتا ہے ۔ پھر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ خدا کے بندوں کو اس مالک الملک اور آقا کے مقابلہ میں لاکھڑا کرتے ہو ۔ کیا یہ بےعلمی اور جہالت کی بات نہیں ۔ کیا یہ سراسر انسانیت کے درجہ سے گری ہوئی بات نہیں ؟ کتنا بڑا ظلم ہے کہ حقیر اور ذلیل انسان کو الوہیت کی مسند پر بٹھا دیا جائے ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ یہ گمراہی اور ضلالت کا وہ مقام ہے جہاں رشدوہدایت کی توفیق چھن جاتی ہے اور انسان شرک بت پرستی کی بھول بھلیوں میں پھنس کر رہ جاتا ہے *۔ حل لغات :۔ اضل اللہ ۔ یہ انداز بیان ہے قرآن حکیم کا ۔ اس کے معنے یہ نہیں ہیں کہ خدا نے براہ راست ان لوگوں کو گمراہ کیا ہے یا وہ گمراہ کرنا چاہتا ہے یا اس کو انکا گمراہ رہنا گوارا ہے بلکہ اصل میں یہ اختصار ہے مقصد یہ ہے کہ اس قسم کے لوگ زندگی کی ایسی منزل تک پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کے لئے اللہ نے گمراہی لازم قرار دی ہے ، اس اتنے بڑے مفوم کو اضل اللہ کے مختصر الفاظ میں عموماً بیان کردیا جاتا ہے تاکہ مسلمان کسی وقت بھی اللہ کے تخیل سے ڈرے اور ہر حالت میں بلاواسطہ اس کے جمال قدرت اور جلال فطرت کا مشاہدہ کرتا رہے *۔