وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَارْجُوا الْيَوْمَ الْآخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
اور مدین کی طرف (١) ہم نے ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا انہوں نے کہا اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو قیامت کے دن کی توقع رکھو (٢) اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔ (٣)
ایام اللہ ف 1: ان آیات میں تذکیر ایام اللہ کے تحت ہلاک شدہ قوموں کا ذکر ہے ۔ کہ کیونکر انہوں نے حق وصداقت کو ٹھکرایا ۔ اور کیونکر عذاب کے مستحق ٹھہرے ۔ ارشاد ہے کہ مدین والوں کے پاس ہم نے حضرت شعیب کو بھیجا ۔ انہوں نے کہا ۔ اے قوم ! ایک اللہ کی عبادت کرو ۔ توحید اصل دین ہے ۔ فطرت کا تقاضا ہے ۔ دل کی آواز ہے معقول اور صحیح حقیقت ہے ۔ اور یوم آخرت کے محاسبہ سے ڈرو ۔ کہ ایمان بالآخرت سے دلوں میں نیکی کی تحریص پیدا ہوتی ہے اور کفر اختیار کرکے زمین میں فساد نہ مچاؤ* اس سے معلوم ہوتا ہے ۔ کفر بجائے خود تخریب ہے ۔ تباہی ہے اور ہلاکت ہے ۔ اور جو لوگ انبیاء کے پیش کردہ نظام کو نہیں مانتے وہ عالم کون ومکان کو غارت کردیئے میں براہ راست ممدومعان ہوتے ہیں * ان لوگوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی آواز پر کان نہ دھرا ۔ اور روائتی بدبختی سے کام لیتے ہوئے ان کی تکذیب کی ۔ اور کفروشرک پر مصررہے ۔ نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ قیامت آخرین زلزلہ آیا اور عبرت بنا گیا ۔ پھر دیکھو ۔ کہ عاد اور ثمود کی بستیاں کس طرح الٹ گئیں * شیطان نے ان کے اعمال کو سنوار کر پیش کیا ۔ اور راہ ہدایت سے روکا ۔ اور باوجود ہوشیار اور سمجھ دار ہونے کے اس کے اداؤں میں آگئے * قارون کے حالات سنو ۔ کہ سرمایہ داری نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ۔ وہ دولت کے نشہ میں اس درجہ سرشعار ہوا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو بالکل بھول گیا * اور کہنے لگا کہ میرے مال میں ان کا کوئی حصہ نہیں ۔ میں نے اپنے خزائن دولت کو اپنی عقل وفراست سے پیدا کیا ہے ۔ اس میں اللہ کے فضل اور اس کی بخشش کو کوئی دخل نہیں ۔ اس لئے میں نہ تو اس کی راہ میں کچھ دینے کو تیار ہوں ۔ اور نہ اس کے دین کو مانتا ہو * اسی طرح فرعون اور ہامان علوہ اقتدار کی خواہش میں اندھے ہوگئے اور ہرچند حضرت موسیٰ نے ان کے سامنے دلائل رکھے ان کو حق اور سچائی کی دعوت دی ۔ مگر انہوں نے تکبر وغرور کو نہ چھوڑا اور کسی طرح بھی بنی اسرائیل کو آزادی نہ دی *