فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ فَأَنجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
ان کی قوم کا جواب بجز اس کے کچھ نہ تھا کہ کہنے لگے کہ اس مار ڈالو یا اسے جلا (١) دو آخر اللہ نے انھیں آگ سے بچا لیا (٢) اس میں ایماندار لوگوں کے لئے تو بہت سی نشانیاں ہیں۔
نار نمرود میں تحویل و تبدیل ف 1: یہاں سے پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ کا بیان فرمایا ہے کہ جب انہوں نے اللہ کے پیغام کو بابل کے کونے کونے میں پہنچادیا ۔ اور بتوں کی بےچارگی اور عجز کو سختی کے ساتھ بیان کیا ۔ اور توجہ کی تائید میں ایسے دلائل قاہرہ ارشاد فرمائے * کہ منکرین سے کوئی جواب نہ بن پڑا ۔ تو انہوں نے کہا ۔ کہ اس کو زندگی سے محروم کردو ۔ مارڈالو ۔ اور آگ میں جھونک دو ۔ یہ ہمارے مذہب اور دین کے لئے زبردست خطرہ ہے ۔ چنانچہ آگ کا ایک بڑا الاؤ تیار کیا گیا ۔ اور ابراہیم (علیہ السلام) کے ایمان کا امتحان ہونے لگا ۔ منکرین اور کفار کی جماعت خوش تھی ۔ کہ ہمارے بتوں کی توہین کرنے والا چشم زون میں آگ میں چل کر بھسم ہوجائیگا ۔ اور ہم اپنے دشمن کو اپنے سامنے فنا ہوتا اور مٹتا دیکھیں گے ۔ ان کا خیال تھا ۔ کہ اس قربانی سے ان کے دیوتا بھی مسرور ہوں گے ۔ کہ ہمارے عقیدت مندوں نے ہمارے ایک نہ ماننے والے سے خوب انتقام لیا ۔ مگر اللہ کی تدبیر ان کی اس قساوت قلبی اور محرومی پرستش رہی تھی ہوا یہ کہ وہ آگ کا الاؤ جو کہ انہوں نے بڑی محنت سے تیار کیا تھا ۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے اس میں کود پڑنے سے بالکل سرد ہوگیا ۔ اور سل امتی سے تبدیل ہوگیا ۔ کیونکہ یہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ذلیل اور رسوا نہیں کرتا * اب یہ سوال کہ ایسا کیونکر ہوگیا ۔ کیا آگ اپنی فطرت کو بھول گئی ۔ یا ابراہیم (علیہ السلام) کی سوزش پنہانی نے اس کو مغلوب کرلیا فی الحقیقت یہ سوال ہی مہمل ہے کیونکہ کسی کی عقل تسلیم کرے یا نہ کرے ۔ واقعہ یہی ہے کہ آگ بجھ گئی اور ابراہیم ان کے مکر او سوء تدبیر سے بچ گئے * ہم جب خدا کو اس کی قدرت واعظمت کے ساتھ مانتے ہیں تو اس کے بعد اس نوع کے اعتراضات اور شکوک کی گنجائش نہیں رہتی ۔ وہ چاہے تو جہنم کی آگ کو جنت کی نہروں میں تبدیل کردے ۔ اور کرہ آفتاب سے حرارت چھین کر اس کی بجائے برف کی سی برددت رکھ دے ۔ یہ سب چیزیں ممکن ہیں ۔ اور اس سے بھی زیادہ محالات عقلی ہیں جو اس کے سامنے صف بستہ کھڑے حکم کے منتظر ہیں *۔ ہاں اپنی تسلی کے لئے اتنا سمجھ لیجئے کہ جل جاتا یا سوزش کا احساس اصل میں آگ سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اپنے احساس یقینی سے متعلق ہے آگ چونکہ اس قسم کے احساس کر پیدا کرنے کا موجب ہے ۔ اس لئے سمجھا جاتا ہے کہ آگ جلاتی ہے اور سوزش پیدا کرتی ہے ۔ لہٰذا وہ شخص جو یہ یقین رکھے کہ آگ مجھ کو جلائے گی ۔ وہ آگ میں نہیں جلے گا ۔ بشرطیکہ یہ یقین بدرجہ حق الیقین ہو ۔ چنانچہ اب ایسے لوگ نظر آرہے ہیں ۔ کہ وہ دھکتے ہوئے انگاروں پر سے با اطمینان گزر جاتے ہیں ۔ اور دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں ۔ جب ان سے پوچھا گیا ۔ کہ آپ کیونکر آگ کی بھری کھائی پر سے گزر گئے ۔ تو انہوں نے یہی جواب دیا ۔ کہ قوت ارادی کی مضبوطی سے *۔ حل لغات :۔ اوحرقوہ ۔ او یہاں بل کے معنوں میں ہے ۔ یا استدراک کے لئے ہے ۔ جیسے ارشاد ہے ۔ فم اللیل الا قلیلا نصفہ اوالنقص منہ قلیلا اوزدعلیہ