وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَحْسَنَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور جن لوگوں نے یقین کیا اور مطابق سنت کام کیے ہم ان کے تمام گناہوں کو ان سے دور کردیں گے اور انھیں نیک اعمال کے بہترین بدلے دیں گے (١)
نجات کا سچا اور سادہ نظریہ ف 1: اگر انسان یہ چاہے کہ گناہوں اور لغزشوں سے وہ بالکل پاک رہے اور قطعاً اس سے کسی نوع کی غلطی کا صدور نہ ہو ۔ تو یہ ایک ایسی آرزو ہے جو کبھی پوری نہیں ہوسکتی ۔ انسان فطرت اور ساخت کے لحاظ سے مجبور ہے ۔ کہ کبھی کبھی خواہشات سے نفس کی رو میں بہہ جائے ۔ اس لئے وہ مذہب جو انسان سے سو فی صدی نیک رہنے کا مطالبہ کرتا ہے ۔ غلط ہے اور اسکا پیش کرنے والا انسان نفسیات سے محض آشنا اور ناواقف ہے * دیکھئے اللہ تعالیٰ نے جب آدم کو پیدا کرنا چاہا ۔ تو فرشتوں نے کہا ۔ کیا آپ ایسے شخص کو نیابت سے سرفراز کرنا چاہتے ہیں جو سنگین گناہوں کا ارتکاب کریگا ۔ لیعذاک الدعائ۔ تو اللہ نے کہا کے جواب میں یہ نہیں فرمایا ۔ کہ نہیں بنی آدم بڑے پاک اور پارسا ہونگے اور تزہد وتورع میں وہ تم سے بھی آگے ہوں گے ۔ بلکہ اللہ نے فرمایا کہ انی اعلم ما لا تعلمون ۔ یعنی میں تمہاری پاک بازی کو دیکھ چکا ۔ اب بنی آدم کے گناہ اور لغزشیں دیکھنا چاہتا ہوں ۔ تم میرے اسرار ومصالح سے آگاہ نہیں ۔ اس لئے خاموش رہو * معلوم ہوا کہ لغزشیں کرتا ہیں ۔ اور بعض حالات میں گناہوں کا صدور انسان سے ممکن ہے سوال پیدا ہوتا ہے ۔ پھر نجات کے کیا معنی یا اور گناہوں سے مخلصی کسے کہتے ہیں * جواب یہ ہے کہ قرآن کہتا ہے ۔ تم اللہ پر ایمان رکھواس کے پروگرام کو حتے الامکان پورا کرنے کی کوشش کرو ۔ اس کے بعد جو غلطیاں بتقاضائے بشریت تم سے سرزد ہوجائیں گی ۔ ان کو اللہ تعالیٰ بخش دینگے اور پھر تمہارے اعمال حسنہ کا ثواب کئی گنا کرکے اپنی طرف بڑھادینگے ! اور تم کو جنت ونعیم کے انداز سے بہرہ ادوز ہونے کے لئے آزاد چھوڑ دینگے ۔ یہی اسلامی نجات اور طریق مخلصی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے ۔ اس میں کس درجہ فطرت کے ساتھ توافق ہے اور نجات کا کس قدر صحیح اور سچانظریہ ہے جس میں نہ تناسخ کا چکر ہے نہ صلیب کی الجھن ہے سیدھی سادی بات ہے کہ بالعموم خدا کی فرمانبرداری کرو اور آقا کے احکام بجا لاؤ۔ وہ تمہیں اجر دیگا انعام دے گا ! اور تمہاری لغزشوں اور کوتاہیوں کو صاف بھی کردے گا *۔