وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ ۗ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے ان میں سے کسی کو کوئی اختیار نہیں (١) اللہ ہی کے لئے پاکی ہے وہ بلند تر ہے ہر اس چیز سے کہ لوگ شریک کرتے ہیں۔
اللہ جس کو چاہے اپنی خدمات کے لئے مختص کرلے (ف 2) ﴿يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ﴾سے مقصود اصل میں ایک شبہ کاازالہ ہے ۔ مکہ والوں کو ہمیشہ یہ بات کھٹکتی تھی کے خدا نے قریش کے بڑے بڑے لوگوں کو چھوڑ کر محمد (ﷺ) ایسے بےیارو مددگا شخص کو نبوت اور رسالت کے لئے کیوں منتخب کیا ۔ وہ کہتے تھے کہ ہم روساء ہیں ۔ معززین ہیں ۔ پڑھے لکھے لوگ ہیں اور دنیا کے لحاظ سے وجیہہ ہیں عظیم الشان ہیں ۔ ان سب باتوں سے قطع نظر کرکے آخر اللہ نے یہ کیا سوچاکہ ایک یتیم بینوا کو سرداری بخش دی ! کیا ہم میں کوئی اس قابل نہ تھا کہ اس کے سر پر نبوت کا تاج رکھا جاتا ! کیا ہم سب نالائق تھے ! ان کی رائے میں یہ سخت تکلیف دہ اور ناقابل برداشت فروگذاشت تھی ! عیسائی اور یہودی بھی تقریباً اس نوع کے اعتراضات کرتے ۔ وہ بھی یہ کہتے کہ نبوت کے اعزاز کے لئے اب تک بنی اسرائیل کو اہل سمجھا گیا ہے اور بنی اسمعیل کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ۔ اس لئے ضروری تھا کہ اگر عرب میں کسی پیغمبر کو بھیجنا منظور تھا تو وہ بنی اسرائیل میں سے ہوتا ۔ بنی اسمعیل میں سے نہ ہوتا ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم لوگ ہماری مصلحتوں سے آگاہ نہیں ہو ۔ تمہاری نظریں بالکل سطحی ہیں ۔ تم یہ نہیں جان سکتے کہ کون شخص نبوت کے عہدہ جلیلہ کے لئے مناسب اور موزوں ہے ۔ تم صرف یہ دیکھتے ہو کہ تم میں کون زیادہ سرمایہ دار اور زیادہ اعوان وانصار رکھنے والا ہے ۔ اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کون قلب ودماغ کے لحاظ سے ان سب سے بلند ہے اور کون بےیارومددگار ہے کہ ہم اس کو منتخب کریں اور لاکھوں پر بھاری بنادیں غرض یہ ہے کہ تم کو اللہ کے معاملات میں دخل اندازی کا استحقاق نہیں ہے ۔ وہ جو چاہے کرے ۔ اور جس شخص کو چاہے برگزیدہ کرے ۔حل لغات : وَيَخْتَارُ۔ اس کے بعد من یشاء محذوف ہے بمعنی جس کو چاہتا ہے دین کی خدمات کے لئے پسند کر لیتا ہے۔