أَفَمَن وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ كَمَن مَّتَّعْنَاهُ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ
کیا وہ شخص جس سے ہم نے نیک وعدہ کیا ہے وہ قطعاً پانے والا ہے مثل اس شخص کے ہوسکتا ہے؟ جسے ہم نے زندگانی دنیا کی کچھ یونہی دے دی پھر بالآخر وہ قیامت کے روز پکڑا باندھا حاضر کیا جائے گا (١)
دیندار اور مادہ پرستی (ف 1) اس آیت میں منکرین کے شبہ کا جواب ہے کہ اگر ہم اسلام قبول کریں گے تو ﴿نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا﴾یعنی ہمیں ہماری سرزمین سے نکال باہر کیا جائے گا ۔ اور املاک ودولت سب کچھ چھین لیا جائے گا ۔ ارشاد ہے کہ کیا تم دولت عقبی کا مقابلہ دنیائے فانی کے سامان عیش وعشرت سے کرتے ہو ۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ سب کچھ عارضی وفانی ہے ۔ اور آخرت کی نعمتیں باقی رہنے والی اور دائمی ہیں ۔ اور منافع کے لحاظ سے کہیں بہتر اور موزوں ہیں۔ فرمایا پھر اس بات پر بھی غور کرو کہ دیندار اور دنیا دار کیا اجر اور درجہ میں برابر ہیں ؟ دیندار اور متقی کے لئے جنت کے پر بہار دروازے کھلے ہوں گے ۔ اور دنیا کے طالب کو چند روزہ عیش کے بعد خدا کے حضور میں پکڑ کرلا کھڑا کیا جائے گا ۔بات اصل یہ ہے کہ لوگوں کو عقبیٰ اور دینداری پر کامل یقین نہیں ہے ۔ ورنہ حقیقت میں سچا دیندار انسان ہرگز دنیا میں ایک مادہ پرست سے کم خوش حال نہیں رہتا ۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ مادہ پرستی میں قناعت نہیں ہے اور مسرت مفقود ہے اور دینداری میں طمانیت ہے تسکین ہے اور مسرت وقناعت ہے جلوہ پرستی حرص وآز کے جذبات کو بڑھا دیتی ہے ۔ انفرادی خود غرضی پیدا کردیتی ہے ۔ اور انسان کو جرائم کے قریب تر کردیتی ہے کہ وہ انہیں کی طرح بلندقسم کے مطمع نظر سے محروم ہوتا ہے بخلاف اس کے دینداری ہمہ قناعت ہے ۔ افراد کے لئے ایثار ومحبت ہے ۔ اور انسانیت کا بلند ترین نصب العین ہے ۔ اس کی وجہ سے فرشتوں کا قرب اور عالم لاہوت سے وابستگی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ فراز عرش سے متصل ہے اور عالم اجساد سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔حل لغات : الْمُحْضَرِينَ: محضر کی جمع بمعنی مجرم ۔ جس کو پکڑ کر کسی عدالت کے سامنے حاضر کیا جائے ۔