سورة القصص - آیت 40

فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ ۖ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

بالآخر ہم نے اس کے لشکروں کو پکڑ لیا اور دریا برد کردیا (١) اب دیکھ لے کہ ان گنہگاروں کا انجام کیسا کچھ ہوا۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف 1) فرعون دراصل بڑا مکار اور گھاگ تھا ۔ اس نے جب دیکھا کہ موسیٰ کی تعلیم لوگوں میں اثر کررہی تو اس نے ازراہ طنز عقیدہ توحید کا مضحکہ اڑایا ۔ اور کہنے لگا کہ اے معزین و شرفاء میں تو یہ جانتا ہوں کہ میں تمہارا خدا ہوں ۔ اور موسیٰ کے کلام سے جو یہ مستفاد ہوتا ہے کہ اللہ آسمان پر ہے ۔ تو یہ کیونکر ممکن ہے ! پھر ہامان سے مخاطب ہوکر کہا کہ ہامان ایک اونچا سا محل تو تعمیر کردو ۔میں دیکھوں تو سہی کہ موسیٰ کا خدا کہاں ہے ؟ ظاہر ہے یہ جملہ محض موسیٰ کے عقیدہ کے استخفاف کے لئے کہا گیا ۔ ورنہ انہوں نے کبھی اس سے یا اس کی قوم سے یہ نہیں کہا کہ خدا آسمان پر بیٹھا ہوا نظر آتا ہے ۔ اور نہ حقیقتاً فرعون یہ سمجھتا تھا کہ موسیٰ کا یہ مذہب ہے ۔ یہ تو محض اپنے حاشیہ برداروں کو مطمن کرنے کا ایک حیلہ تھا ۔ ارشاد ہے کہ فرعون کی قوم نے اس پیغام کو ٹھکرا دیا ۔ اور سخت کبروغرور کا اظہار کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کا قانون ہلاکت حرکت میں آیا ۔ اور یہ لوگ دریا میں غرق کردیئے گئے ۔