سورة القصص - آیت 27

قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَىٰ أَن تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ ۖ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِندِكَ ۖ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ ۚ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اس بزرگ نے کہا میں اپنی دونوں لڑکیوں میں سے ایک کو آپ کے نکاح ٰمیں دینا چاہتا ہوں (١) اس (مہر پر) کہ آپ آٹھ سال تک میرا کام کاج کریں (٢) ہاں اگر آپ دس سال پورے کریں تو یہ آپ کی طرف سے بطور احسان کے ہیں یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ آپ کو کسی مشقت میں ڈالوں (٣) اللہ کو منظور ہے تو آگے چل کر مجھے بھلا آدمی پائیں گے (٤)۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

شادی کے سامان ف 1: حضرت موسیٰ کی دعا قبول ہوگئی ۔ اور اللہ تعالیٰ نے رحمت کا سامان مہیا کردیا ۔ ایک لڑکی شرماتی اور لجاتی ہوئی ان کے پاس آئی اور کہنے لگی میرے ابا آپ کو بلاتے ہیں ۔ تاکہ آپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلا کر جو احسان کیا ہے ۔ اس کا معاوضہ آپ کو دیں ۔ معلوم ہوتا ہے ۔ کہ جب یہ بہنیں اپنے جانوروں کو پانی پلا کر پہنچی ہیں ۔ تو انہوں نے حضرت موسیٰ کی ہمدردی کا تذکرہ اپنے والد حضرت شعیب سے کیا ہوگا ۔ اور حضرت شعیب نے اس سنا پر انہیں بلالیا ہوگا *۔ اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے ۔ کہ عورتیں اگر حالات وقضا سے مجبور ہوکر کام کاج کریں ۔ تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ اور یہ بھی معلوم ہوا ۔ کہ اجنبی عورت سے ہمدردانہ گفتگومیں کوئی گناہ نہیں ۔ بلکہ بعض حالات میں ضروری ہوجاتا ہے کہ کمزور طبقہ کی مدد کی جائے * غرض کہ حضرت موسیٰ۔ حضرت شعیب کے ہاں پہنچے تو انہوں نے سارا قصہ سنایا ۔ کہ میں فلاح ہوں ۔ اور اس طرح مصر سے بھاگا ہوں ۔ انہوں نے واقعہ سن کر کہا ۔ کہ تم خوف نہ کھاؤ ۔ خاطر جمع رکھو ۔ اب ظالم فراعنہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے * ف 2: جب ابتعائی رسمی گفتگو ختم ہوگئی ۔ تو اللہ نے انتظام فرمادیا ۔ کہ مہاجر موسیٰ قصر فرعون سے آزاد ہوکر حضرت شعیب کی صحبت سے استفادہ کرے ۔ چنانچہ حضرت شعیب کی لڑکی کی سفارش پر کہ آبا انہیں اپنے ہاں ملازم رکھ لیجئے ۔ آدمی مضبوط اور دیانت دار ہیں ۔ حضرت موسیٰ وہاں روپڑے ۔ اور مزید کرم اللہ کے یہ کیا کہ ان کی خانہ آبادی کی طرح ڈال دی حضرت شعیب نے کہا تم یہاں رہو سہو یہ تمہارا گھر ہے ۔ میں چاہتا ہوں ۔ کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک بیٹی تمہارے نکاح میں دے دوں ۔ مگر شرط یہ ہے ۔ کہ پورے آٹھ سال تک میری خدمت میں رہو ۔ اور اگر دس سال رہ جاؤ ۔ تو یہ تمہاری مرضی ہوگی ۔ میری طرف سے جبر نہ ہوگا ۔ تم انشاء اللہ یہاں رہ کر محسوس کروگے ۔ کہ میں خوش معاملہ آدمی ہوں ۔ حضرت موسیٰ نے بخوشی یہ شرط مان لی ۔ اور کہا ۔ کہ ان دونوں مدتوں میں سے جو چاہوں پوری کردوں ۔ آپ کو کوئی اعتراض نہ ہوگا ۔ پس یہ طے ہے ۔ میرے اور آپ کے درمیان اللہ گواہ ہے * ف : یہ آٹھ سال کی خدمت اصل میں نکاح کے لئے شرط نہ تھی ۔ بلکہ بات یہ تھی ۔ کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) بذریعہ الہام جانتے تھے کہ موسیٰ آئندہ چل کر بڑے جلیل القدر پیغمبر ہونے والے ہیں ۔ اور اب نوجوان ہیں ۔ ان کو ثقہ اور معین ہونے کے لئے کڑی ٹریننگ کی ضرورت ہے ۔ اس لئے انہوں نے اس حیلے سے ان کو اپنے ہاں رہنے پر مجبور کردیا ۔ کہ وہ ان کی صحبت اور فیوض سے اس قابل ہوجائیں ۔ کہ فرعون کا مقابلہ کرسکیں *۔ حل لغات :* حجج : حجۃ کی جمع ہے ۔ یعنی سال *