سورة آل عمران - آیت 28

لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

مومنوں کو چاہیے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں (١) اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی کسی حمایت میں نہیں مگر یہ کہ ان کے شر سے کسی طرح بچاؤ مقصود ہو (٢) اللہ تعالیٰ خود تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹ جانا ہے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

کفار سے موالات : (ف1) اس آیت میں بتایا ہے کہ مسلمان کافروں سے موالات نہ کریں اور ہرگز کسی غیر کو لائق محبت نہ سمجھیں ، اس مضمون کو متعدد آیات میں واضح کیا گیا ہے ، ﴿لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ﴾ پھر یہ بھی فرمایا ﴿وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ﴾اس آیت میں ارشاد ہے کہ﴿ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ﴾ یعنی کفر سے دوستی ایمان سے دشمنی کے مترادف ہے ، وہ جو اسلامی مفاد کو چھوڑ کر اور مسلمانوں سے رشتہ اخوت توڑ کر کفار سے تعلقات محبت استوار کرتا ہے ‘ وہ اسلام اور مسلمانوں کا غدار ہے اور ہرگز قابل اعتماد نہیں اور اس موالات میں کسی قوم وفرقہ کی تخصیص نہیں ، سارے کافر اسلام سے دشمنی رکھتے ہیں ، اور سچ اور جھوٹ میں کبھی اتحاد ممکن نہیں ، اگر رات اور دن ایک نہیں ہو سکتے تو ضرورت ہے کہ کفر اور اسلام میں بھی کوئی تعلق نہ ہو ۔ مقصد یہ ہے کہ مسلمان نہایت محتاط بن کر رہیں اور کسی طرح کے فریب کا شکار نہ ہوں یہی مطلب ہے ان الفاظ کا کہ﴿ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً﴾البتہ ناگزیز معاشی وسیاسی تعلقات میں مضائقہ نہیں ، اسلام یہ نہیں چاہتا ہے کہ مسلمان کا کوئی حقیقی دوست نہیں ، اپنے مصالح کے لئے وہ مسلمانوں سے محبت کا اظہار کرتے ہیں ورنہ ان کے دل بغض وحسد سے معمور ہیں ﴿وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ﴾یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ مسلمان نے اس سے تغافل برت کر سخت نقصان اٹھایا ہے ہمیشہ اغیار نے دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے ، اس لئے ضرورت تھی کہ اس حقیقت کا اظہار کردیا جائے ۔ وہ لوگ جو مخلصانہ مسلمانوں سے تعلقات رکھتے ہیں قرآن حکیم نے کھلے الفاظ میں ان کی تعریف کی ہے اور اپنے متعلقین کو تلقین کی ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک روا رکھا جائے ۔ حل لغات : أَوْلِيَاءَ: حقیقی دوست ۔ نَفْسَهُ: یہاں اس کے معنی بذات خود کے ہیں ۔