سورة النمل - آیت 40

قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ ۖ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بول اٹھا کہ آپ پلک جھپکائیں اس سے بھی پہلے میں اسے آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں (١) جب آپ نے اسے اپنے پاس موجود پایا تو فرمانے لگے یہی میرے رب کا فضل ہے، تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا ناشکری، شکر گزار اپنے ہی نفع کے لئے شکر گزاری کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا پروردگار (بے پروا اور بزرگ) غنی اور کریم ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بلقیس کا تخت اور علم الحرکت ف 1 حضرت سلیمان کو ابتدا میں تو غصہ آیا ۔ کہ آخر کیوں بلقیس نے مجھ کو ایک معمولی قسم کا بادشاہ سمجھا مگر ایک تدبیر ذہن میں آئی ۔ کہ لاؤ یہ دیکھیں کہ وہ کہاں تک معاملہ فہم ہے اس کا بہترین طریق یہ سمجھا گیا ۔ کہ بلقیس کو اپنے پاس بلائیں ۔ چنانچہ پہلے تو انہوں نے اس کا تخت حکومت مٹانے کی ٹھانی اور وہ بھی اس طرح کہ معمولی عقل کا آدمی بھی یہ اعجاز دیکھ کر اللہ کی قدرتوں سے آگاہ ہوجائے اور اسلام قبول کرلے ۔ پھر آپ نے درباریوں سے کہا مخاطب ہوکر پوچھا کون شخص ہے جو بہت جلد ملکہ سبا کے تخت کو مجھ تک پہنچا سکتا ہے ۔ بہت بڑے پُرفن چلاک اور قوی جن نے کہا کہ حضور میں پہنچا سکتا ہوں جب آپ اس مجلس سے اٹھیں گے بھی نہیں اور تخت موجود پائیں گے مگر ایک شخص جو اس سے بھی زیادہ ماہر تھا اور جس کو کتاب (الٰہی) کا علم تھا کہا کہ میں آنکھ جھپکنے سے پیشتر تخت کو آپ کی خدمت میں حاضر کرسکتا ہوں ۔ چنانچہ وہ گیا اور تخت لے کر آگیا ۔ حضرت سلیمان نے کہا کہ اس تخت کی ہیئت کو بدل دو ۔ تاکہ یہ معلوم ہو کہ ملکہ کس قدر عقلمند ہے چنانچہ تخت کی شکل بالکل تبدیل کردی گئی اور ادھر اس اثنا میں ملکہ پہنچ چکی تھی ۔ وہ ان معجزات کو دیکھ کر ششدرہ رہ گئی ۔ جب حضرت سلیمان نے کہا یہ تخت آپ کے تخت سے ملتا جلتا ہے تو اس نے کہا ہاں کچھ اسی قسم کا ہے اور اس کے ساتھ ہی اسلام کا اعتراف کرلیا ۔ اور بول اٹھی کہ میں اس واقع سے پہلے ہی نبوت کو تسلیم کرچکی تھی اور مان چکی تھی کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں *۔ طرفان طرف بمعنی آنکھ مفرد اور جمع دونوں معنوں میں آتا ہے اور دیکھنے اور پلک مارنے کے معنی میں ہوتے ہیں