سورة النمل - آیت 36

فَلَمَّا جَاءَ سُلَيْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِيَ اللَّهُ خَيْرٌ مِّمَّا آتَاكُم بَلْ أَنتُم بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُونَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

پس جب قاصد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا کیا تم مال سے مجھے مدد دینا چاہتے ہو؟ (١) مجھے تو میرے رب نے اس سے بہت بہتر دے رکھا ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے پس تم ہی اپنے تحفے سے خوش رہو (٢)۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

حضرت سلیمان نے تحائف واپس کردیئے ! (ف 2) اس آیت میں بلقیس نے عام بادشاہوں کی اور ملوک کی ذہنیت بیان کی ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ حدود مملکت کو وسیع کرنے میں کوشاں رہتے ہیں ۔ اور جب کسی ملک کو فتح کرلیتے ہیں تو پھر بڑی ابتری مچاتے ہیں ۔ وہاں کا نظام یك قلم بدل دیتے ہیں اور وہاں کے معززین اور اکابرین ان انقلابات میں پس جاتے ہیں ۔ اس لئے یہ رائے تو درست نہیں کہ سلیمان کو یہاں آنے پر حملہ کرنے کا موقع دیا جائے ۔ البتہ کوئی تدبیر کرنی چاہیے ۔ چنانچہ اس نے وزراء سے کہا کہ بہتر ہوگا کہ اس کو یہاں کے تحفے تحائف بھیجے جائیں اگر اس نے ان کو قبول کرلیا ۔ تو معلوم ہوگا کہ وہ بہت زیادہ حریص نہیں ہے ! اور ایک فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اتنا پرجوش ہوجائے گا اور اگر اس نے انکار کردیا تو معلوم ہوگا کہ وہ جنگ پر آمادہ ہے ۔ اس تجویز سے معلوم ہوتا ہے کہ ملکہ سبا بہت عقل مند اور سمجھدار خاتون تھی حالانکہ وزراء نے کہا تھا کہ ہم بہت بہادر ہیں اور ہر طرح مرنے مارنے پر تیار ہیں مگر اس نے یہ مناسب خیال نہ کیا ۔