سورة آل عمران - آیت 26

قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

آپ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے جس سے چاہے سلطنت چھین لے تو جسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں (١) بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

﴿مَالِكَ الْمُلْكِ﴾: (ف2) یہودیوں کو اپنے مال ودولت پر فخر تھا ، مدینہ اور آس پاس کی بستیاں ان کے اقتدار میں تھیں اس لئے وہ فاقہ مست مسلمانوں کی طرف کوئی توجہ نہ دیتے ، قاعدہ ہے ایک باعروج قوم اپنے تمدن وتہذیب پر قانع ہوتی ہے ، قرآن حکیم میں بطور دعا کے اس حقیقت کو واضح کیا کہ مالک الملک صرف خدا ہے جس کی بادشاہتیں ہمیشہ رہیں گی اس کے خزانے کبھی ختم نہ ہوں گے ، وہ جسے چاہے اور نگ وپیہم کا مالک بنا دے اور جس سے چاہے تاج ونگین چھین لے ، عزت وذلت صرف اس کے قبضے میں ہے ! اس لئے کوئی تاجور اس کا انکار نہ کرے اور حکومت کے نشے میں احکم الحاکمین کی بادشاہت کو تحقیر کی نظروں سے نہ دیکھے کہ وہ پل بھر میں حکومت کے تختے کو الٹ سکتا ہے اس کی قدرت کے یہ ادنی کرشمے ہیں کہ وہ چشم زدن میں بڑے بڑے فرعونوں اور نمرودوں کو غرق وہلاک کردے ، اسی طرح غلام ومفلس اپنے مقدر سے مایوس نہ ہوں کہ وہ پستیوں کو بلندیوں میں تبدیل کرسکتا ہے ، وہ خارستان کو ابر رحمت کے چند قطروں سے باغ ارم بنا سکتا ہے اور اس کی دلیل لیل ونہار کے اختلاف میں ظاہر ہے ، دیکھ لو کس طرح دن کی روشنی رات کی تاریکی میں تبدیل ہوجاتی ہے ، اور کس طرح شب دیجور کی گود میں خورشیدتاباں کھیلنے لگتا ہے اور پھر کس طرح ایک قطرہ آب حیوان ناطق بن جاتا ہے ، غرضیکہ وہ بادشاہوں کا بادشاہ اور مالکوں کا مالک ہے ، سب اس کی چاکری کا اعتراف کرتے ہیں ، پس یہودی اپنے مال ودولت پر نہ اترائیں کہ خدا انہیں کفر وذلت کے مصائب میں مبتلا کرسکتا ہے اور مسلمان نہ گھبرائیں کہ خدا ان کی مایوسیوں کو امیدوں اور کامرانیوں میں بدل سکتا ہے ، یہ انداز بیان کتنا خدا پرستانہ اور موحدانہ ہے ، کس قدر مؤثر اور دلپذیر ہے ؟ مقصد یہ ہے کہ لوگ غلط فہمی میں نہ رہیں اور اللہ تعالیٰ کی بےانداز قدرتوں کا اعتراف کریں ، یہ کہ حکومت وعزت صرف خدا کی دین ہے اور اس میں ہمارے کسب واختیار کو کوئی دخل نہیں، اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے حصول کے لئے قواعد بنا رکھے ہیں ، ان کی رعایت رکھنا نہایت ضروری ہے عزت وغلبہ اور حکومت واختیار یونہی بلا محنت حاصل ہونے والی چیزیں نہیں ، بلکہ یہ موقوف ہیں حاکمانہ اخلاق کے حصول پر ، اسی طرح غلامی ونکبت کے لئے بھی اسباب ہیں ، البتہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو پستی سے اٹھانا چاہتے ہیں تو ایسے اسباب کے حصول کی جو ضروری ہیں انہیں توفیق دے دیتے ہیں ۔