فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّن قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ
اس کی اس بات سے حضرت سلیمان مسکرا کر ہنس دیئے اور دعا کرنے لگے کہ اے پروردگار! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں (١) اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کرلے۔ (٢)
ف 2: حضرت سلیمان کی تسخیر اور وسعت کے متعلق یہ دوسرا قصہ ہے ۔ بیان کیا جاچکا ہے کہ حضرت سلیمان کے لشکر میں جن وانس کے علاوہ طیور بھی تھے اور انہیں ہدہد کے متعلق یہ خدمات تھیں کہ وہ اثنا جنگ میں پانی تلاش کرے اور لشکر کو پانی کا پتہ دے ۔ چنانچہ ہدہد کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ زمین کے نیچے سوتوں کو معلوم کرلیتا ہے ۔ اور عربی میں ضرب المثل ہے کہ ھوابصر من ہد ہد کہ وہ ہد ہدسے بھی زیادہ تیز نگاہیں رکھتا ہے * ایک دن ہدہد لشکر میں نظر نہ آیا ۔ اور گم ہوگیا ۔ اس پر حضرت سلیمان ناراض ہوئے اور یاوسپراوہر سے دریافت کیا ۔ اور غصے سے کہا کہا گر وہ معقول عذر پیش نہ کریگا تو میں اس کو ذبح کرڈالوں گا ۔ اسی اثناا میں میں وہ آگیا ۔ اور اس نے ایک نئے ملک اور نئی حکومت کی خبر دی *۔ اس قصہ میں ہدہد کا بولنا اور ایک نئی سلطنت کو ڈھونڈھ نکالنا اور پھر ان کے مذہب تک کا پتہ دینا یہ سب باتیں کچھ اس ڈہب کی ہیں کہ عام لوگ اس کو سن کر کھٹکتے ہیں ۔ اس لئے اہل تفسیر اس کے بارہ میں حسب ذیل فرماتے ہیں :۔ (1) یہ ایک خاص ہدہد تھا ۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح کی سمجھ بوجھ دے رکھی تھی ۔ (2) طیور بھی ان معاملات کو سمجھتے ہیں اور ان کے متعلق یہ غلط مشہور ہے کہ وہ عقل نہیں رکھتے چنانچہ ایک ماہر علم الحیوانات ان کی زبان کے چند اصول دریافت کئے ہیں *۔ (3) ہدہد ایک آدمی کا نام ہے ۔ جیسے اسد ، ذئب ، ابو عامر وغیرہ انسانوں کے نام ہوسکتے ہیں مگر یہ تاویل درست وزن دار نہیں تفقد الطیر من الطیر کی تصریح میں موجود ہے اور اس کے بعد لاعذبنہ کہ کر گویا توضیح کردی ہے ۔ (4) الھد ھد میں مضاف محذوف ہے اور اس سے صاحب ہد ہد مراد ہے جو طیور کی دیکھ بھال پر مقرر تھا اور مجھے یہ توضیح پسند ہے ۔