وَأَلْقِ عَصَاكَ ۚ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ يَا مُوسَىٰ لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ
تو اپنی لاٹھی ڈال دے، موسیٰ نے جب اسے ہلتا جلتا دیکھا اس طرح کہ گویا وہ ایک سانپ ہے تو منہ موڑے ہوئے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پلٹ کر بھی نہ دیکھا، اے موسٰی! خوف نہ کھا (٢) میرے حضور میں پیغمبر ڈرا نہیں کرتے۔
حضرت موسیٰ اور فرعون ف 2: حضرت موسیٰ جب حضرت شعیب سے جدا ہوئے تو انہوں نے جنگل میں اللہ تعالیٰ کی تجلی دیکھی تجلی کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے ۔ مختصراً یوں سمجھ لیجئے کہ تجلی کے معنی ایک نوع کے اظہار کے ہیں شئے تجلی وہ ہوتی ہے جس کو وہ نوربحث اپنے اظہار کا ایک عنوان ٹھہرادے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو مخاطب کیا اور فرمایا ۔ دیکھو میں تمہارا خدا ہوں اور اس کے بعد ان کو یہ بتایا کہ تمہارے عصا ہولناک سانپ بن سکتا ہے اور تمہارا ہاتھ سفید وبراق ہوجائے گا ۔ غرضیکہ اسی طرح کے نو خوارق ان کو دیئے گئے اور کہا گیا کہ اب فرعون اور اس کی قوم کے پاس جاؤ۔ وہ بہت ظالم ہوگیا ہے اور اس کی سرکشیاں حد سے بڑھ چکی ہیں ۔ وہ فاسق ہے اور چاہتا ہے کہ بنی اسرائیل میں بھی عقیدہ عمل کی تمام برائیاں پھیل جائیں ۔ عصا کا سانپ بن جانا اور ہاتھ کا سفید براق ہوجانا ۔ غالباً اس سے مقصود یہ تھا کہ حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کو تسلی ہو اور فرعون کو معلوم ہوجائے کہ بنی اسرائیل جیسی بےضرر قوم میں بھی زندگی پیدا ہوسکتی ہے ۔ اور میرے لئے اور میری قوم کے لئے اژدھا بن سکتی ہے ۔ اگر اللہ کو ان کی زندگی منظور ہے اور خدا یہ چاہے کہ ان کو غلامی کے خلاف آمادہ کیا جائے انہیں مظلومیت کا احساس پیدا ہوجائے اور ان کو بتلایا جائے کہ تم میں ظلم کے مقابلہ کی پوری قوت موجود ہے اور تم دشمن کے لئے بہت زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں * ارشاد ہے کہ حضرت موسیٰ فرعون کے پاس تربیت وآزادی کا مطالبہ لے کر آئے ! اور خوارق ومعجزات سے اس کو یقین دلایا کہ میں اللہ کی جانب سے آیا ہوں ۔ اور بنی اسرائیل کی رہائی سب مقدرات میں سے ہے اب یہ ناممکن ہے کہ تم زیادہ عرصہ اپنے مظالم کو جاری رکھ سکو ۔ یہ سن کر فرعون اور اس کی قوم نے موسیٰ کے مطالبات ماننے سے قطعی انکار کردیا اور صاف کہہ دیا کہ دراصل آپ ہم لوگوں پر جادو کرکے ہماری حکومت چھیننا چاہتے ہیں * ارشاد ہے کہ یہ لوگ دل میں حضرت موسیٰ کی صداقت کے قائل ہوچکے تھے اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ آفتاب نبوت چمکے اور لوگ اس کی تمازت کو محسوس نہ کریں اور عمداً انکار ۔ اور مراد سرکشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ متعدد لوگ دریا میں غرق کردیئے گئے اور بنی اسرائیل ان کی املاک کے وارث قرار پائے ۔