هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَىٰ مَن تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ
کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں۔
(ف 1) عام عربوں کا یہ عقیدہ تھا کہ خیالات وافکار کا بھی ایک شیطان ہوتا ہے ۔ جو معلم اور شاعر کو عجیب باتیں بتلادیتا ہے ۔ اس لئے ممکن ہے حضور کا یہ الہام بھی معاذ اللہ شیطان کے الفاظ کا نتیجہ ہو ۔ ارشاد فرمایا کہ یہ محض وہم باطل ہے ۔ شیاطین او جنات میں یہ استعداد اور طاقت ہی نہیں اور نہ وہ اس قدر اہم کام کے سزاور ہوسکتے ہیں ۔ قلب جبریل سے اس کو چرا لینے کا بارا نہیں ۔ اور نہ لوح محفوظ سے اس راز کو معلوم کرلینے پر قادر ۔ کیونکہ اب ان کو سماعت اسرار سے روک دیا گیا ۔ حضور شاعر نہ تھے اس آیات میں دراصل حضور کی سیرت طیبہ بیان فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ آپ کن اخلاق وعادت کے حامل ہیں ۔ ارشاد ہے کہ آپ موحد ہیں اور ایک خدا کو پوجتے ہیں ۔ کیونکہ شرک دونوں جہاں میں بدترین لعنت اور موجب ہلاکت ہے ۔ آپ تبلیغ وراہنمائی کے اصولوں سے آگاہ ہیں ۔ آپ نے پہلے اپنے قریبی متعلقین کو اصلاح کی طرف بلایا ۔ اور پھر دوسرے لوگوں کو مخاطب کیا ۔ مومنین کے حق میں آپ انتہا درجے کے شفیق ہیں ۔ اور مجرموں سے سراسر بیزار ۔ اللہ کے سامنے شب وروز جھکتے ہیں اور راتوں کو قیام فرماتے ہیں ۔ اور نمازیوں اور پاکبازوں سے محبت سے پیش آتے ہیں ۔ اس میں بکمال الفت ومحبت نشست وبرخاست رکھتے ہیں ۔ ارشاد ہے کہ کیا ایسے پیغمبر کو تم ان لوگوں جیسا سمجھتے ہوجو دریغ گو اور جھوٹے ہیں ۔ جن کا کوئی کیریکٹر نہیں ۔ ہم تم کو بتلاتے ہیں کہ شیطان کن لوگوں پر نازل ہوتا ہے ۔ اس نوع کے جھوٹے گنہگاروں پر جو ہمیشہ غیوب اور شیطنت کی باتوں پر کان لگائے رہتے ہیں اور دنیا میں محض جھوٹ کی اشاعت کرتے ہیں ۔