هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ
وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں۔ (١) پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا (٢) اور پختہ اور مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ہیں، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں،
متشابہات : (ف ٢) قرآن حکیم کی تقسیم محکمات ومتشابہات میں دائر ہے ، وہ لوگ جن کے دل نور ہدایت سے مستتیز ہیں ‘ اس تقسیم کو قدرتی اور طبعی خیال کرتے ہیں ، مگر وہ لوگ جن کا مقصد راہ راست سے بھٹک جانا ہے ، وہ محکمات کو جو اساس دین میں چھوڑ دیتے ہیں اور متشابہات جو محض برسبیل استطرادوتوثیق کے لئے بیان کی گئی ہیں ، وجہ نزاع ومخاصمت بنا لیتے ہیں اور گمراہ ہوجاتے ہیں ۔ قرآن حکیم میں عقائد سے لے کر معاشرت کے ادنی سے ادنی مسائل تک سب کو بیان کیا گیا ہے اور پھر ایک ایک مطلب ومقصد کو متعدد وسائل اور اسالیب بیان سے ادا کیا گیا ہے کبھی تشبیہ سے کام لیا جاتا ہے اور کبھی استعارے سے کبھی حقیقت جلوہ آرا ہے اور کبھی مجاز اور پھر ہر طریق ادا میں ظاہر ہے کچھ اختلاف بھی ہے اور یہی نوع بلاغت کی جان ہے ، مگر بایں ہمہ اس اختلاف وتنوع کے ایک وحدت جھلک رہی ہے اور ایک مخصوص رنگ یکساں نمایاں ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کے سامنے کچھ چیزیں بطور اساس ومرکز کے ہیں اور کچھ ایسی ہیں جن کا مرتبہ توثیق وتوقیع کے سوا اور کچھ نہیں ، اب چاہیے تو یہ کہ قرآن فہمی کے لئے ان اساسی ومرکزی عقائد کو سامنے رکھا جائے اور دوسری آیات کو توضیح وتشریح کے لئے سمجھا جائے ، حقیقت کو مجاز پر قربان نہ کیا جائے اور وہ چیز جو واشگاف طور پر کہی گئی ہے اسے اصل قرار دیا جائے اور جو استعارے کے رنگ میں ادا کی گئی ہے ‘ اسے اس کی تائید کے لئے استعمال کیا جائے ، مگر اہل زیغ والحاد جن کے دل بصیرت سے محروم ہیں ‘ ہمیشہ الٹا چلتے ہیں ، وہ حقائق کو چھوڑ کر اساسی مرکز سے قطع نظر کر کے چند عقیدے از خود تراش لیتے ہیں اور پھر اس کے بعد آیات تلاش کرتے ہیں جو ان کی تائید کریں ۔ قرآن حکیم ہی کی یہ خصوصیت نہیں ، ہر کلام بلیغ میں یہ تنوع موجود ہوتا ہے ، صاحب فہم وبصیرت حضرات یہ دیکھتے ہیں کہ کیا اس تنوع میں کسی وحدت کو ڈھونڈا جا سکتا ہے ؟ اور وہ جو مخالف ہوتے ہیں وہ اس تنوع کو رفتار پر محمول کرتے ہیں ۔ اور اصل شے سے بالکل الگ ایک مفہوم تراش لیتے ہیں ۔ ہر فرقہ جو گمراہ ہوتا ہے وہ اسی سبب سے کہ محکمات ومتشابہات میں فرق وامتیاز اٹھا دیتا ہے ، مثلا عیسائی کیوں تثلیث کی طرف مائل ہوئے ؟ اس لئے کہ جب وہ یونانی عقائد ذمیمہ سے دوچار ہوئے اور متاثر ہوئے تو انہوں نے انجیل سے اس بت پرستانہ عقیدہ کو استنباط کرنا چاہا ، انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے لئے ” ابن اللہ “ کا لفظ اکثر استعمال کیا گیا ہے اور یہ کہ خدا اپنے لئے اکثر متکلم مع الغیر کا صیغہ استعمال کرتا ہے ۔ لہذا وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ تثلیت ایک درست اور صحیح عقیدہ ہے ، حالانکہ یہ صحیح نہیں ، اگر وہ مرکز واساس کو ہاتھ سے نہ دیتے اور حقیقت ومجاز میں فرق وامتیاز قائم رکھتے تو ایسی خطرناک ٹھوکر ہرگز نہ کھاتے ۔ ” ابن اللہ “ بطور مجاز کے مستعمل ہوا ہے جس کے معنی محبوب وپیارے کے ہیں ۔ انجیل اور دیگر کتب سماویہ کی مرکزی تعلیم توحید ہی ہے ، انجیل میں صاف لکھا ہے کہ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا ، توریت میں بار بار یہودیوں کو بت پرستی پر ٹوکا گیا ہے ۔ غرضیکہ قرآن حکیم جو کفر وزندقہ کے تمام احتمالات کو بیان فرماتا ہے ، یہ کہتا ہے کہ فتنہ وتاویل کے لئے قرآن حکیم کی ورق گردانی نہ کرو عمل و ایمان کے لئے قرآن حکیم محکمات وبینات سے معمور ہے ، متشابہات اور قابل تاویل واحتمال آیات کو انہیں بینات پر ڈھالنے کی کوشش کرو اور کہو کہ (آیت) ” کل من عند ربنا “۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ ہمارے دل میں زیغ والحاد کی آلودگیاں پیدا نہ ہوں اور یہ کہ ہم قرآن حکیم پر عمل کرنے کی وجہ سے اس کی رحمتوں کے سزاوار اور مستحق ہوں ۔ حل لغات : الراسخون فی العلم : علم میں کامل دستگاہ رکھنے والے ۔