وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَيَّ أَنْ عَبَّدتَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ
مجھ پر تیرا کیا یہی وہ احسان ہے؟ جسے تو جتلا رہا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے (١)
موسیٰ اور فرعون کی بحث (ف 1) حضرت موسیٰ نے جب بنی اسرائیل کی بندگی اور غلامی کے خلاف احتجاج کیا ۔ اور فرعون سے کہا کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اور بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کرتا ہوں ۔ تو فرعون نے کہا ۔ یکایک تجھے نبوت کیونکر مل گئی ؟ کیا ہم نے تیری تربیت نہیں کی ۔ اور تمہیں پال پوس کر بڑا نہیں کیا ۔ اور کیا تو ایک مدت تک ہمارے پاس نہیں رہا ۔ اور کیا تونے اس قبطی کو بلاوجہ نہیں مار ڈالا تھا ؟ حضرت موسیٰ نے جواباً کہا کہ قبطی کے معاملہ میں مجھ سے واقعی لغزش ہوگئی تھی ۔ اور ڈر کر میں بھاگ گیا تھا ۔ اب اللہ نے مجھے سمجھ بوجھ عنایت فرمائی ہے ۔ اور مجھے نبوت کا عہدہ عطا کیا ہے ۔ اس لئے تیری راہنمائی کے لئے آیا ہوں ۔ باقی تربیت وغیرہ کا احسان ، تو کیا پوری قوم کو غلام بناکر ایک فرد کی تربیت کرنا کوئی بہت بڑا احسان ہے ۔ جو تو جتلارہا ہے ۔ اور پھر یہ بھی تو اس وجہ سے ہوا ۔ کہ تونے بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کرڈالنے کا حکم دے رکھا تھا ۔ یہ تیرے استبداد اور ظلم کا نتیجہ ہے ۔ کہ میں تیرے ہاتھ لگا اور تیرے محل میں میری تربیت ہوئی ۔ اب فرعون نے جب دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے نہایت معقول جواب دیئے ہیں ۔ اور اس کے بعد ان سوالات پر مزید گفتگو کی گنجائش نہیں ۔ تو اس نے پہلو بدلا ۔ اور کہا ۔ کہ یہ رب العالمین کون ہے ؟ جس کی طرف سے تو رسول ہوکر آیا ہے ۔ اور جس کی جانب تو ہمیں دعوت دیتا ہے ۔ اور جس کانام بار بار تیری زبان پر آتا ہے ۔موسیٰ (علیہ السلام) نے جواباً کہا ۔ رب العالمین وہ ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا ۔ اس پر وہ اپنے حواریوں سے مخاطب ہوکر کہنے لگا سنتے ہو ۔ موسیٰ کیا کہہ رہے ہیں ؟ گویا وہ چاہتا تھا کہ اپنے اہالی موالیوں کو مشتعل کیا جائے ۔ اور ان کو بتایا جائے ۔ کہ موسیٰ تمہارے معتقدات کے خلاف عقیدہ رکھتا ہے ۔ موسیٰ نے بات کا رخ بدل کر کہا ۔ کہ رب وہ ہے جس نے تم کو پیدا کیا ہے ۔ اور تمہارے آباؤ اجداد کو بھی ۔ فرعون اس مزید تشریح سے گھبرا گیا ۔ اور جو اب بن نہ آیا ۔ تو کہنے لگا ۔ کہ یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ۔ قطعی دیوانہ ہے ۔ موسیٰ نے اس کے جواب کو قابل جواب نہ سمجھتے ہوئے کہا ۔ کہ وہ خدا مشرق ومغرب اور جو کچھ ان دونوں میں ہے ۔ سب کا مالک ہے ۔ مگر تم نافہمی کی وجہ سے محسوس نہیں کرتے ۔ فرعون اس جواب سے بالکل بوکھلا گیا ۔ اسے پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ کوئی ذات ایسی ہے ۔ جو اس سے بہت اعلیٰ وارفع ہے ۔ اور اس کی حدود وسلطنت مشرق سے مغرب تک وسیع ہیں ۔ اس نے غصہ سے بےتاب ہوکر کہا ۔ خبردار ! جو میرے سوا کسی دوسرے کو خدا مانا ۔ ورنہ یاد رکھو کہ میں تمہیں قید کردوں گا ۔ حضرت موسیٰ نے بالکل بےخوف ہوکر کہا ۔ کیا دلیل ومعجزہ کے بعد بھی تم سختی کروگے ۔ اس نے کہا ۔ اگر تم میں صداقت ہے ۔ تو دلائل پیش کرو ۔ موسیٰ نے اپنی لاٹھی کو ڈالا ۔ تو وہ اژدھا بن گئی ۔ اور بغل میں سے ہاتھ دبا کر نکالا ۔ تو سفید چمکتا ہوا نظر آنے لگا ۔ یہ معجزے دراصل فرعون کے لئے بمنزلہ ، تشبیہ کے تھے ۔ اس کو ان معجزات سے یہ بتانا مقصود تھا ۔ کہ اللہ کی قدرت سے بےجان خشک لکڑی بھی اژدہا بن سکتی ہے ۔ اس لئے تم بنی اسرائیل کو اپنے لئے بےضرر نہ سمجھو ۔ اور ہاتھ کا براق ہونا کامیابی وکامرانی کی طرف اشارہ ہے ۔