سورة الشعراء - آیت 1

سم

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

طسم (١)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 2: طسم حروف مقطعات ہیں ۔ تفصیل الم کی بحث میں دیکھئے ۔ امام رازی کہتے ہیں ۔ طا سے مراد قلوب عارفین کی طرف و نشاط ہے ۔ اور اس سے مقصود عشاق کا سردرد بہیت ہے ۔ اور م مریدین سے مناجات پر دال ہے *۔ کتاب مبین کے تعارف کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس محبت وعشق کا ذکر ہے ۔ جو آپ کو عام انسانوں سے تھی ۔ آپ یہ نہیں چاہتے تھے کہ ایک نفس انسانی بھی نجات سے محروم رہے ۔ اور اللہ کا عذاب کا شکار ہوجائے ۔ آپ نے نہایت جانسوزی سے قوم کو نجات وفلاح کی دعوت دی ، اور صراط مستقیم پر گامزن ہونے کی تلقین فرمائی * ارشاد ہے کہ آپ ان لوگوں کی محبت میں اپنی جان کیوں کھوتے ہیں ۔ اگر یہ لوگ اس وضاحت اور دلائل کی کثرت کے باوجود بھی اسلام قبول نہیں کرتے تو ان کو جانے دیجئے ۔ اور ان کی چنداں پرواہ نہ کیجئے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ حق کی پہچان کے لئے باطل کا وجود قائم رہے اور نہ اس کی استطاعت اور قدرت میں ہے ۔ کہ وہ ایسا زبردست نشان ظاہر کردے ۔ جس کے سامنے ان لوگوں کی گردنیں جھک جائیں اور یہ اسلام کی صداقت قبول کرلیں *۔ حل لغات :۔ باخع : ہلاک کرنے والا ۔ غم کی وجہ سے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والا ۔ ع ایھا الباخع الوحد نفسہ محدث ۔ یعنی نوپیدا ۔ یعنی ہر آیت جو نازل ہوئی وہ لوگوں کی معلومات کے اعتبار سے نئی اور جدید ہوگی ۔ ورنہ اللہ کا علم تو ازلی ہے اس کے لئے کوئی بات بھی نئی اور پرانی نہیں