وَهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا
اور وہی ہے جو باران رحمت سے پہلے خوشخبری دینے والی ہواؤں کو بھیجتا ہے اور ہم آسمان سے پاک پانی برساتے ہیں (١)
تذکیربآلا اللہ : (ف 3) قرآن حکیم دلائل وبراہین کا بےنظیر مجموعہ ہے ۔ اس میں ہر نوع اور ہر طبقے کے لوگوں کے لئے تسکین کا بہتر اور وافر سامان موجود ہے ۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں دعوت واشاعت کے کسی طریق کو اٹھا نہیں رکھا گیا ۔ اس میں حکمت وفلسفہ بھی ہے ۔ اور نفسیات انسانی کی عکاسی بھی ۔ معقول اور ٹھوس دلائل بھی ہیں ۔ اور اقوام و ملل کے حالات بھی ممکن طریقہ تصور میں آسکتے ہیں ۔ وہ سب اس میں موجود ہیں ۔ ان آیات میں مشاہدات فطرت کا بیان ہے ۔ اور تذکیر بآلاء اللہ کے اصول پر ان لوگوں کو دعوت ایمان ہے ۔ جو غوروفکر کے عادی ہیں ۔ ارشاد ہے کہ دیکھو ہم نے انسانوں کے سکھ اور آرام کے لئے آفتاب پیدا کیا ۔ اس کی وجہ سے ساری کائنات میں روشنی پھیل جاتی ہے ۔ اور ایک عجیب خوشگوار فضا پیدا ہوجاتی ہے۔ اگر وہ نہ ہو تودنیا میں تاریکی وظلمت چھا جائے ۔ کیا وہ اسی طرح کفر کی ظلمتوں اور تاریکیوں کو دور کرنے کے لئے کسی آفتاب ہدایت کی ضرورت نہیں ! ہم نے رات پیدا کی ہے کہ وہ تمام عیوب کو لباس کی طرح ڈھانک لیتی ہے ۔ اور نیند کو آرام کرنے کے لئے بنایا ، نیز دن کو پیدا کیا ۔ جس میں تم اٹھ کھڑے ہوتے ہو ؟ تو کیا موت کی نیند سے بیداری اور بعثت ممکن نہیں ؟ اور ہم خوشخبری دینے والی ہواؤں کو بھیجتے ہیں ۔ جو باران رحمت کی خبردیتی ہیں اور آسمان سے پاک وصاف پانی برساتے ہیں ۔ کہ خشک اور مردہ زمینیں اس کی وجہ سے زندہ ہوجاتیں ہیں ۔ اور حیوانات اور انسان اس پانی سے استفادہ کریں ۔ تو کیا دل کی خشک اور مردہ زمینیں الہام و وحی کی بارش کے پانی سے تر وتازہ نہ ہوگی ؟ یعنی تم ان تمام معجزات تکوین پر غور کرو ۔ تو تمہیں معلوم ہوگا کہ حکیم وعلیم اللہ اپنے بندوں پر کس درجہ مہربان ہے ۔ ارشاد ہے کہ ہم چاہتے تو ہر بستی میں پیغمبر بھیجتے ۔ اور آپ کی سہولت و آسانی ہر آئنہ مدنظر رکھتے ۔ مگر طے یہ تھا کہ ان تمام رسالت کی ذمہ داریاں کو آپ تنہا نہ اٹھائیں ۔ اس لئے اپنے اس منصب جلیل کو دیکھتے ہوئے منکرین کی خواہشات کا احترام نہ کیجئے ۔ اور انکی جہالت اور سرکشی کے خلاف زبردست جہاد کیجئے ۔ اس کے بعد پھر مختلف نعمتوں کا ذکر ہے ارشاد ہوتا ہے ۔ کہ دیکھو بعض دفعہ ایک دریا ہوتا ہے اور اس میں دو قسم کے دھارے الگ الگ اور ممتاز طریق پر بہتے ہیں ۔ ایک دھارا میٹھا اور شیریں ہوتا ہے ۔ اور دوسرا کڑوا اور کھاری اور دونوں کے درمیان ایک آڑ اور مضبوط اوٹ ہوتی ہے ۔ جو ان کو آپس میں ملنے نہیں دیتی ۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ کے وجود اور زبردست قدرت پر حیرت انگیز دلیل نہیں ۔ آخر ان دونوں دھاروں کو آپس میں ملنے سے کس نے روک رکھا ہے ۔ اور کس نے ان دونوں میں الگ الگ خواص اور رنگ پیدا کئے ہیں ؟ یہ بھی اس کی قدرت باہرہ ہے کہ ایک قطرہ آب سے آدمی پیدا کرکے اسے کنبوں اور قبیلوں والا بنادیتا ہے ۔