وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَائِكَةُ أَوْ نَرَىٰ رَبَّنَا ۗ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا
اور جنہیں ہماری ملاقات کی توقع نہیں انہوں نے کہا کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے؟ (١) یا ہم اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھ لیتے (٢) ان لوگوں نے اپنے آپ کو ہی بہت بڑا سمجھ رکھا ہے اور سخت سرکشی کرلی ہے۔
مکے والوں کے عجیب عجیب اعتراضات ف 1: مشرکین مکہ کا نبوت وبعثت کے متعلق اعتراضات کرنا مشہور ہے اور اصل وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت اور بزرگی کو تسلیم کریں ۔ یہ بات ان کے لئے گراں تھی ۔ کہ وہ اپنی نحوت اور غرور طبعی کو بالائے طاق رکھ کر یہ تسلیم کریں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سب سے زیادہ بہتر اور اعلیٰ انسان ہیں اس لئے طرح طرح کے اعتراضات تراشتے رہتے تھے ۔ کبھی کہتے آپ چونکہ انسان ہیں اس لئے عہدہ نبوت اور رسالت کے لائی نہیں کبھی کہتے کہ آپ کے پاس آسمان سے خزائن نازل نہیں ہوتے اس لئے آپ عنداللہ معزز ومفتخر نہیں اور کبھی کہتے کہ ہم فرشتوں کو دیکھنا چاہتے ہیں پھر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہتے کہ ہم کو خدا برملا دکھائیے ۔ اس آخری بات کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ بزعم خود اپنے کو برتر اور اعلیٰ سمجھتے ہیں ۔ اور اسی لئے نہایت سرکش ہورہے ہیں *۔ بھلا ان کو فرشتہ دیکھنے کا کیا استحقاق ہے ؟ اور کیا فرشتے دیکھنے کے بعد اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ؟ کیا پھر بھی یہ لوگ نہیں کہہ سکتے کہ یہ محض جادو اور ساحری ہے اور اللہ تعالیٰ کو ان آنکھوں سے دیکھنے کا مطالبہ تو بہت بڑا تکبر اور سخت غرور کی بات ہے ۔ کیا انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ خدا بھی کوئی ان کا بےتکلف دوست ہے اور جب یہ چاہیں گے وہ آموجود ہوگا ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ یقینا فرشتوں کو دیکھیں گے اور ان کے اس مطالبہ کی تکمیل ضرور ہوگی ۔ مگر اس وقت ان کا فرشتوں کو دیکھنا ان کے لئے خوش آئند نہ ہوگا ۔ فرشتے اس وقت آئیں گے جبکہ ان کو عالم قبر سے بیدار کیا جائے گا اور اللہ کے حضور میں پیش کیا جائیگا اس وقت یہ لوگ کہیں گے کہ اے کاش یہ فرشتے روک لئے ہو بند کردیئے جاتے اور ان آنکھوں سے ہم انہیں نہ دیکھتے اس وقت ان کے اعمال اللہ کے سامنے پیش ہونگے اور یہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ وہ بالکل ادنیٰ ترین اور ناچیز ہیں اور پراگندہ بالوں کی طرح فضا میں منشتر ہیں *۔ البتہ پاکباز اور نیک انسان جو اللہ سے ڈرتے ہیں ۔ اور جن کے دلوں میں تقویٰ اور پرہیزگاری کے جذبات موجزن ہیں اور وہ اہل جنت ہیں ان کے لئے عقبیٰ کی نعمتیں مقدر ہیں وہ اس دن نہایت آرام وآسائش میں ہونگے ۔ ان کے لئے بہترین ٹھکانہ ہوگا ۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی بوقلموں عنایتوں اور گوناگوں رحمتوں سے بہرہ اندوز ہوں گے *۔ حل لغات :۔ لا یرجون ۔ امید نہیں رکھتے ۔ لغت “ اضداد ” سے ہے اس کے معنی خوف کے بھی ہیں جس کے ساتھ انکار لگا ہو چنانچہ قرآن نے اس کو ان معنوں میں استعمال کیا ہے ۔ مالکم ترجون للہ وقارا سرکشی ۔ حدود اعتدال سے تجاوز * جھلا محجورا ۔ کے نزدیک جھوڑا ان مصادر میں سے جس کا فعل مذکور نہیں ہوتا اور جو منصواب ہوتے ہیں ۔ جیسے معاذ اللہ اور مجھورا تاکید کے لئے ہے *۔