سورة النور - آیت 27

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو (١) یہی تمہارے لئے سراسر بہتر ہے تاک تم نصیحت حاصل کرو (٢)

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

پہلے اجازت طلب کرو : (ف1) اسلام کی نگاہیں انسانی عادات وخصائل اور انسانی نفسیات وحالات سے متعلق بہت عمیق ہیں ، وہ یہ جانتا ہے کہ گناہ کا منبع کہاں ہے اور کن باتوں سے گناہ کی ترغیب ہوتی ہے ، اس لئے وہ سب سے پہلے اس گناہ کے سوتے کو بند کرتا ہے جہاں سے وہ پھوٹتا ہے ، اور اس کے بعد حفاظتی تدابیر کی تلقین کرتا ہے ۔ چنانچہ غور کرنے پر معلوم ہوگا ، کہ سب سے بڑی تحریک خلوت اور آزادی سے مرد اور عورت کا ملنا ہے اس لئے اسلام نے خلوت پر پابندیاں عائد کیں ، اور فرمایا دیکھو جب کسی عزیز یا دوست کے ہاں جاؤ ، جہاں کی عورتیں تم سے پردہ کرتی ہیں ، تو دھم سے ان کے ہاں نہ پہنچ جاؤ بلکہ پہلے اجازت طلب کرو تب اندر جاؤ تاکہ برائی کا کوئی احتمال پیدا نہ ہو سکے ۔ اذن کی تشریح آپ کو اس حدیث سے معلوم ہوگی ایک شخص حضور (ﷺ) کے پاس آیا اور دروازے کے پاس آکر کہا میں اندر آسکتا ہوں آپ نے روضہ نامی ایک عورت سے کہا کہ تم جاؤ اور اس کو اسلامی آداب سے آگاہ کرو ، اور کہو کہ السلام علیکم کہے چنانچہ اس نے استیذان السلام علیکم کہا ، اور آپ نے اندر آنے کی اجازت دی ۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ استیذان کا طریق السلام علیکم ہے یہ نہیں کہ کہا جائے جناب میں اندر آسکتا ہوں مجھے اجازت ہے ؟ ﴿حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا﴾میں واو عطف علی المترادف کیلئے ہے یعنی مقصد یہ ہے کہ بلا استیذان یعنی السلام علیکم کہنے کے بغیر اندر نہ جاؤ ارشاد ہے کہ اگر کوئی صاحب ملنے کی اجازت نہ دیں تو بغیر کسی ناراضگی کے واپس ہوجاؤ اللہ کی آداب اور عمدہ عوائد رسمیہ ہیں جن کو زندہ قومیں اپنا دستور العمل بناچکی ہیں اور ہم ان سے نا آشنا محض ہیں ۔ حل لغات : تَسْتَأْنِسُوا: معلوم کرو ، اذن طلب کرو ، واقفیت بڑھا لو ، تینوں معنوں میں مستعمل ہوتا ہے ، مگر یہاں استیذان کے مترادف ہے ۔