يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ
اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے (١) اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے اور گناہگار سے محبت نہیں کرتا۔
یمحق اللہ الربوا : (ف ٢) اس آیت اک ایک سیدھا سادا مفہوم تو یہ ہے ربو یا سود میں برکت نہیں ہوتی اور صدقات میں خدا اضافہ ونمود کی استعداد پیدا کردیتا ہے یعنی سود خوار کا مال بالآخر برباد ہوتا ہے ، اس کی نالائق اولاد اہل اور عیاش ہوجاتی ہے ، جس سے مال ودولت جو محنت سے جمع کیا جاتا ہے ، سرعت سے برباد ہوجاتا ہے ، بخلاف مرد مومن کے جو اپنا منتہائے نظر بلند اور وسیع رکھتا ہے ، اس کے مال میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اس کی اولاد صالح ہوتی ہے ، وہ دیکھتی ہے ہمارا والد کس درجہ اصالح تھا ، وہ اس کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہے ، اس لئے کہ ان کا باپ ان کے لئے ایک بہترین اسوہ حیات چھوڑ کر مرتا ہے ، وہ مال ودولت کے ڈھیر گو اولاد کو سونپ کر نہیں جاتا ، مگر اخلاق وسادات کا متاع گرانمایہ وہ ضرور اولاد کے ہاتھوں میں دے جاتا ہے جس سے وہ اپنی زندگی سنوار لیتے ہیں ، اس سے زیادہ برکت وسعادت اور کیا ہوسکتی ہے ؟ دوسرا مفہوم ذرا زیادہ دقیق ہے اور وہ یہ ہے کہ سود سے اصل سرمایہ میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور قوم کے لئے یہ خسران مبین کا باعث ہوتا ہے ، اقتصادیات کا یہ اصول ہے کہ دولت میں اس وقت اضافہ ہوتا ہے ، جب اسے زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے ، اور سود سے روپیہ بجائے پھیلنے کے چند ہاتھوں میں سمٹ کے رہ جاتا ہے ، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم کی تمدنی ترقی رک جاتی ہے ، بخلاف اس کے اگر تعاونی جذبات کی ترقی ہو ، روپیہ محدود ہاتھوں میں نہ رہے اور پھیلتا رہے تو قوم کے سرمایہ میں اضافہ ہوگا ۔ دیکھئے قرآن حکیم نے کس خوب صورتی سے سرمایہ کے مسئلہ کو آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے حل کردیا ہے ، (آیت) ” فھل من مدکر “۔ حل لغات : سلف : گزر چکا ۔ یمحق : مٹاتا ۔ یربی : بڑھانا ۔