سورة النور - آیت 22

وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تم میں سے جو برزگی اور کشادگی والے ہیں انھیں اپنے قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہ کھالینی چاہیئے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف فرما دے؟ (١) اللہ قصوروں کو معاف فرمانے والا ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بلند اخلاقی کا حیرت انگیز نمونہ : (ف ٢) یہ شخص مسطح جس نے اس شرارت میں زیادہ سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا تھا حضرت ابوبکر (رض) پروردہ تھا ، حضرت ابوبکر (رض) نے اس کو اس کو اور اس کے متعلقین کو اپنے پاس رکھا ، اور عرصہ تک ان کی ہر طرح اعانت کی مگر اس نے اس طرح حق نمک ادا کیا تو صدیق (رض) قدرتا غصے سے بیتاب ہوگئے ، آپ نے کہا میرے ہاں سے تم لوگ نکل جاؤ اب مجھ میں اور تم میں کوئی رشتہ ناطہ نہیں ، یہ لوگ کئی دن تک پریشان رہے اور آخر قرآن حکیم کی یہ آیتیں نازل ہوئیں ، غور فرمائیے ایک اپنا نام لیوا اور اپنے لخت جگر کے متعلق اس نوع کا نازیبا سلوک روا رکھتا ہے اور حرم رسول اور بنت صدیق (رض) عنہا کی عصمت عفاف پر ناپاک حملے کرتا ہے ، مگر اس رسول کا خدا اور صدیق کا آقا یہ کہتا ہے کہ اس شخص کو معاف کر دو ، اور آئندہ اپنی اور عطاؤں اور بخششوں سے اس کو اور اس کے متعلقین کو محروم نہ رکھو ، کتنا بڑا اخلاق اور کتنی بڑی روحانی تعلیم ہے ، قاعدہ ہے کہ انسان اپنے دشمن کو تو معاف کرسکتا مگر ناممکن ہے کہ ناموس کے دشمن اور عزت کے دشمن سے تعاون کیا جائے ، مگر قرآں کی یہ آیت جب نازل ہوئی تو ایک طرف رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسطح کو معاف کردیا ، اور دوسری جانب ابوبکر (رض) نے کہا ، میں اس کی اعانت نہ کرکے خدا کی مغفرت سے محروم نہیں رہنا چاہتا کیا اتنی بلند تعلیم اور اتنا زبردست عمل آپ کو اسلام اور مسلمانوں کے سوا کہیں اور مل سکتا ہے ۔