أَمْ لَمْ يَعْرِفُوا رَسُولَهُمْ فَهُمْ لَهُ مُنكِرُونَ
یا انہوں نے اپنے پیغمبر کو پہچانا نہیں کہ اس کے منکر ہو رہے ہیں (١)۔
(ف ٢) فرماتے ہیں کیا انہوں نے اس کلام میں غور وفکر نہیں کیا اور کیا انہوں نے نہیں سوچا ، کہ قرآن کا انداز بیان ہی بتا رہا ہے کہ یہ کلام کسی انسانی دماغ کی اختراع نہیں ، قرآن کی بلاغت ووضاحت قرآن کا پیغام اور جامعیت قرآنی تعلیمات کا تجربہ یہ سب باتیں اس بات کی کھلی دلیل ہیں کہ یہ کلام بلاشبہ اللہ کا کلام ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ آخر ان لوگوں کو قرآن پر تنقید کرنے کی کیوں جرات ہوئی انہوں نے بےسوچے سمجھے کیوں اسے ہدف استہزاء بنایا ، جب کہ اس کا انداز بیان صاف طور پر بتلا رہا ہے ، کہ انسانی علم اس کی مثل پیدا کرنے سے یک قلم قاصر اور عاجز ہے ۔ اللہ تعالیٰ دریافت فرماتے ہیں ، کیا اس میں کوئی انوکھا پیغام ہے جو تم نے نہیں سنا ، اور محض عجیب اور نادر ہونے کی وجہ سے اس کے منکر ہو ، یا کچھ اور معاملہ ہے ؟