سورة المؤمنون - آیت 38

إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا وَمَا نَحْنُ لَهُ بِمُؤْمِنِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ تو بس ایسا شخص ہے جس نے اللہ پر جھوٹ (بہتان) باندھ لیا ہے، (١) ہم تو اس پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

قوم ہود (علیہ السلام) کا آخرت سے انکار : (ف ١) دنیا میں ہر وقت ایسے مادہ پرست لوگ موجود رہے ہیں جن کا ایمان آخرت پر نہیں ہوتا ، اور جو چاہتے ہیں کہ انہیں افکار واعمال میں پوری آزادی دے دی جائے ، وہ جو چاہیں کریں ، اور جو چاہیں کہیں ، ان کی روک ٹوک کرنے والا نہ ہو ، وہ محض نفس کے بندے ہوئے ہیں ان کے سامنے صرف یہ نصب العین ہوتا ہے کہ جس طرح ہو ، دنیاوی زندگی عیش سے گزر جائے نہ انہیں اللہ کا ڈر ہوتا ہے ، اور نہ اعمال کی باز پرس کا خیال ، انکی رائے میں انسان کو آزاد پیدا کیا گیا ہے اور اس کی زندگی کا کوئی اخلاقی مقصد نہیں ، وہ ایک حیوان ہے جو کھاتا پیتا اور مرجاتا ہے بخلاف اس کے مذہب نے ہمیشہ ایمان بالآخرۃ کے عقیدے پر زور دیا ہے ، اور اس کی اہمیت کو واضح طور پر بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ اس عقیدے کی بدولت شخصی ذمہ داری کا خیال پیدا ہوتا ہے اس کا ماننا اخلاق اور روحانیت کے قیام کیلئے از بس ضروری ہے کیونکہ مذہبی عقائد سے جو شخص عاری ہے جو خدا سے نہیں ڈرتا اور اس کو نہیں جانتا ، آخرت کو ایک نوع کا واہمہ قرار دیتا ہے ۔ وہ ہرگز نیکی کی جانب راغب نہیں ہو سکتا ۔ غور فرمائیے ، کیا نیکی کے لئے اس شخص کے دل میں کوئی تحریص پیدا ہو سکتی ہے جو موت کے بعد زندگی کا قائل نہیں ؟ وہ نیکی اور بدی کے ثمرات کا فرق سمجھنے سے یکسر قاصر رہے گا ۔ بات یہ ہے کہ ایمان بالاخرۃ کا عقیدہ ایک اساسی اور بنیادی عقیدہ ہے اس سے دلوں میں خشیت الہی پیدا ہوتی ہے ، نیز دیانتداری اور فرائض کا احساس بڑھتا ہے کیونکہ اس عقیدہ کو ماننے والا احتساب اور مکافات پر پورا پورا یقین رکھتا ہے ، سرکشی اور معصیت کے لئے اس وقت دل میں تحریک ہوتی ہے جب مکافات اور سزا کا خیال دماغ سے بالکل نکل جائے ، اس وقت انسان پر ہوائے نفس کا پورا تسلط ہوتا ہے ، ان وجوہ کی بنا پر ہر نبی نے اپنی قوم کو ایمان بالاخرۃ کی تلقین کی ، اور کہا کہ دیکھو تمہاری یہ زندگی عارضی ہے اور تمہیں آگے بڑھنا ہے اور ایک دائمی وابدی زندگی بسر کرنا ہے اس دائمی وابدی زندگی کی تیاری کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس زندگی کو تسلیم کرو ، اور اس کے بعد اس میں کامیاب وکامران رہنے کے لئے جدوجہد کرو ، حضرت ہود (علیہ السلام) نے جب یہ عقیدہ اپنی قوم کے سامنے پیش کیا تو حسب معمول ان مادہ پرست لوگوں نے وہی پرانے اعتراضات شروع کردیئے کہنے لگے کی موت کے بعد بھی زندگی ہے کیا جب ہم مٹی ہوجائیں گے ، اور ہمارا قالب ہڈیوں کی صورت میں باقی رہ جائے گا اس وقت بھی ہمیں اٹھایا اور چلایا جائے گا ، یہ بات تو باکل عقل وفہم سے عبید ہے یہ تو ہم کبھی تسلیم نہیں کرسکتے ، ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ بس یہی زندگی ہے اس کے بعد نہ جینا ہے اور نہ مرنا ، ہم میں سے کوئی شخص نہیں اٹھایا جائے گا ، یہ شخص تو سراسر مفتری اور کاذب ہے اور باز پرس کے خیال سے جذبہ احتیاط اور ولولہ بیداری قلوب میں موجزن ہوتا ہے ، اور ہم اس کی بات ماننے کیلئے ہرگز تیار نہیں ، حضرت ہود (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی کہ مولا یہ میرے پیغام کو نہیں مانتے ، اور مجھے جھٹلاتے ہیں ، تو ان سب سے نبٹ لے اور میری مدد کر ۔ نتیجہ یہ ہوا ، کہ دستور الہی کے موافق عذاب الہی آیا ، اور ان تمام مادہ پرست منکرین کو خس وخاشاک کی طرح بہا کرلے گیا ، اس وقت انکی کوئی منطق کام نہ آسکی اور نہ ان کے اعوان وانصار انہیں بچا سکے ، ارشاد ہے کہ یہ قانون ہلاکت ناگزیر اور ضروری ہے ، جب وقوع پذیر ہوتا ہے تو پھر اس میں تقدم وتاخر نہیں ہوسکتا ۔ حل لغات : اترفنھم : التراف سے ہے جس کے معنے بہت نعمت دنیا مراد آسودہ حالی سے ہے ، ھیہات ھیہات : بور وتعذر کو ظاہر کرنے کیلئے ہے ۔ فبعدا : لعنت اللہ کی رحمت سے دوری ، تترا : مسلسل پیہم پے درپے ، ۔ احادیث : حدیث کی جمع ہے بمعنی بات ، حکایت اور قصہ ۔