فَأَرْسَلْنَا فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ
پھر ان میں خود ان میں سے (ہی) رسول بھی بھیجا (١) کہ تم سب اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں (٢) تم کیوں نہیں ڈرتے؟
(ف ٢) اس ہلاکت کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد کو خیر وبرکت سے نوازا اور وہ ساری دنیا میں پھیل گئے پھر ان ہی میں سے ایک ان میں رسول بھیجا جس نے اسی پیغام کو دہرایا اور وہی نغمہ توحید سنایا ، جس کو اس سے قبل حضرت نوح (علیہ السلام) بارہا سنا چکے تھے ، اور عجیب بات ہے کہ ان کو اسی قسم کے سرداروں سے وہی جواب سننا پڑا ، جو نوح (علیہ السلام) کو دیا گیا تھا ، کہ تم آخر ہماری ہی طرح کے ایک انسان ہو ، تم میں ایسی کون سی خصوصیات ہیں ؟ کہ تمہیں رسول اور پیغمبر جانیں ۔ یہ واقعات اس لئے بیان فرمائے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوجائے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا پیغام ایک ہے اس کی دعوت ایک ہے اور پروگرام ایک اسی طرح انکار کرنے والے بھی نوح (علیہ السلام) کے زمانے سے لیکر اب تک ایک ہی قسم کے ہیں ، ان کے اعتراضات میں کوئی تحقیق کوئی جدت ، کوئی ندرت نہیں ، ان سب لوگوں کی ذہینت یکساں ہی ہے ۔